پاکستان اور ایران نے 18 مئی 2023 کو سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقے مینڈ میں پہلی بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا ہے۔ یہ مارکیٹ دونوں ممالک کے مابین 2012 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت تعمیر ہونے والی چھ مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور ایران نے گبڈ- پولان پاور ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح بھی کیا ہے، جس کے تحت ایران روزانہ 100 میگا واٹ بجلی گوادر کو فراہم کرے گا۔ توانائی کے طلب گار پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ ایک اہم اقدام ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 909 کلومیٹر (565 میل) طویل سرحد مشترک ہے اور پاکستان کے قیام سے ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ تاہم دو طرفہ تعلقات نے 1996 میں افغانستان میں طالبان کے ظہور کے ساتھ ہی رکاوٹوں کا سامنا کرنا شروع کیا، خاص طور پر پاکستان کے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد سے۔ پاکستان اور اِیران کے مابین مجموعی تعلقات پر اثرانداز ہونے والے عناصر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان اِیشو، اِیران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں تناؤ اور 1979 کے اِنقلابِ اِیران کے بعد اَمریکہ اور اِیران کے باہمی تعلقات میں جاری کشیدگی جیسے اِیشوز نے پاکستان اور اِیران کے باہمی تعلقات کو بلا واسطہ یا بالواسطہ متاثر کیا ہے۔ 1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد اِیران اور افغانستان کے مابین تعلقات کے بگاڑ میں اِضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اِس کی توقع بھی کی جا رہی تھی کیونکہ دونوں ملکوں میں سخت گیر موّقف کے حامل گروپوں کو حکومتی نظام میں مرکزی فوقیت حاصل تھی۔ حتیٍٰ کہ 1998 میں افغانستان اور ایران کے مابین حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ اِس پس منظر میں اِیران اور پاکستان کے تعلقات میں بھی سرد مہری آگئی کیونکہ طالبان کے افغانستان میں اِقتدار کے قیام کے پیچھے پاکستان کی حمایت اور کوششیں شامل تھیں۔ اِس طرح پاکستان اور اِیران، افغانستان میں اپنے اپنے حلقہ اَثرورسوخ میں اِضافے کے لییسر گرم رہے۔ اِیران شمالی اِتحاد کی حمایت کررہا تھا جبکہ طالبان کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ بین الاقوامی سیاست کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ریاستوں کے مابین تعلقات خالصتاّ مفادات کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں جس میں مذھب، رنگ اور نسل کا عمل دخل کم سے کم ہوتا ہے اور ملکوں کے باہمی تعلقات صرف ان کے مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ 2001 میں افغانستان پر اَمریکہ کے حملے کے نتیجے میں طالبان کو اِقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایران نے اس وقت اَمریکہ کے ساتھ تعاون کیا اور اِس تعاون کی وجہ غالِبا یہ تھی کہ ایران امریکہ کی طرف سے معاشی پابندیوں میں نرمی کی توقع رکھتا تھا۔ تاہم جب ایران کی توقعات پوری نہ ہوئیں اور امریکہ نے کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے اِجتناب کیا تو ایران نے بھی2005 سے اَمریکہ مخالف افغان طالبان سے روابط قائم کرنا شروع کر دیئے تاکہ افغانستان میں امریکہ کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں جس سے امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے۔ اِسی طرح2015 میں اَفغانستان میں دولتِ اِسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے پیشِ نظر اِیران نے اَفغان طالبان سے تعلقات بڑھا دیئے کیونکہ داعش دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ تھا۔ اَفغانستان کی صورتحال کے پس منظر میں پاکستان اور اِیران کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات میں سعودی فیکٹر بھی بہت اہم رہا ہے۔ سعودی عرب اور اِیران مسلم دنیا میں اپنے اثرورسوخ میں اِضافے کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ روایتی گہرے تعلقات ہیں جبکہ ایران پاکستان کا ہمسایہ برادر مسلم ملک ہے جس کے ساتھ قریبی تعلقات میں پاکستان کسی بھی قسم کا بگاڑ اَفورڈ نہیں کرسکتا ۔ چاہے اِیران اور عراق کے مابین جنگ ہو یا یمن کی خانہ جنگی ہو جس میں ایران اور سعودی عرب مخالف دھڑوں کی حمایت کررہے ہیں، پاکستان کا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ مسلم ممالک اپنی صفوں میں اِتحاد رکھیں اِس لیے پاکستان ہمیشہ برادر مسلم ملکوں کے درمیان ہونے والی کسی بھی قسم کی لڑائی میں حصہ لینے سے اِنکاری رہا ہے حتیٰ کہ پاکستان نے 2016 میں سعودی عرب کی درخواست کو رد کرتے ہوئے اپنی فوج یمن بھیجنے سے اِنکار کردیا ۔ چین نے اَب مشرق وسطیٰ کے دو تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی کوششوں سے اِیران اور سعودی عرب کے مابین سات سال سے زائد عرصے سے سفارتی تعلقات منقطع رہنے کے بعد تعلقات بحال ہوئے ہیں جس کا اِعلان چار روزہ مذاکرات کے نتیجے میں رواں سال 10 مارچ کو بیجنگ میں ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں کیا گیا ہے جس کے بعد سعودی عرب اور اِیران کے مابین کشیدگی کی بدولت پاکستان جیسے ملک پر جاری سفارتی دباؤ میں یقیناً کمی آئی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد جہاں مشرق وسطیٰ میں چین کا کردار بڑھتا نظر آرہا ہے وہیں اِس رائے کو بھی تقویت حاصل ہورہی ہے کہ عالمی سیاست میں بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اَمریکہ کو چین جیسی ابھرتی عالمی معاشی طاقت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ چین جیسے متبادل کی موجودگی میں دنیا کی سیاست کا محور اَمریکہ سے ہٹ کر چین کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ عالمی سیاست کی اِس بدلتی صورتِ حال میں خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات کی بحالی اور علاقائی کشیدگی میں کمی کے بعد پاکستان اور اِیران کے مابین تجارتی اور سفارتی تعلقات میں اِیک نئی گرم جوشی کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔