ایک عرصہ سے واجب تھا کہ پولیس مقابلوں کے نام پر معصوم لوگوں کے قتل عام پر لکھوں، یہ ایک بڑا موضوع ہے، ایک کالم یا ایک نشست میں احاطہ ممکن نہیں، جب جب موقع ملا بیان کرتا رہوں گا،پنجاب اور سندھ میں چار دہائیوں تک قتل عمد کو مقابلہ قرار دینے کے ان گنت واقعات سامنے آئے، ایک دور میں پولیس کے سامنے ڈٹ جانے والے اور مزاحمت کرنے والے ایڈیٹروں اور رپورٹروں کی ایک معقول تعداد ہوا کرتی تھی ، آج ایسے دبنگ صحافی اور کرائمز رپورٹر خال خال ہیں ، معصوم لوگوں کے قتل کے واقعات میں پولیس کو ہمیشہ سے حکمرانوں کے ساتھ مخصوص مفادات رکھنے والے صحافیوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے، انیس سو ستر کے عشرہ میں روزنامہ مساوات کے کرائم رپورٹر پرویز چشتی مرحوم پولیس کے ایسے کارناموں کے خلاف مزاحمت کا نشان تھے، اسی دور میں سب سے زیادہ سرکولیشن والے روزنامہ مشرق اور امروز کے کرائمز رپورٹر پولیس کے مفادات کی نگہبانی کیا کرتے تھے، انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کو پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی،اس انگلش اخبار کی سرکولیشن ساٹھ ہزار تھی، آج سارے انگلش اخبارات مل کر بھی ساٹھ ہزار نہیں چھپتے،پاکستان ٹائمز کے رپورٹر ادریس صاحب بہت دبنگ صحافی تھے، پولیس کو کوئی مارجن نہیں دیتے تھے،اس کے بعد جنگ میں پرویز چشتی صاحب کے بیٹے جمیل چشتی کو دیکھا جو جعلی پولیس مقابلوں پر کمپرومائز نہیں کرتے تھے، ساری کہانی کو انویسٹی گیٹ کرنے کے بعد خبر فائل کرتے۔ ٭٭٭٭٭ بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے میں اخبار کے رپورٹنگ روم میں کھڑا تھا، ایک نیا نیا رپورٹر جو ایک سرکاری محکمے کا کلرک بھی تھا،اندر داخل ہوا،اور بڑے فاتحانہ انداز میں کہنے لگا،یہ جو کل رات بند روڈ پر پولیس مقابلہ ہوا، میرے سامنے ہوا ،، ایک دوسرے رپورٹر نے سوال کیا، تم اس ویران علاقے میں کیا کرنے گئے تھے؟ جواب ملا… جس تھانیدار نے وہ مقابلہ کیا میرا دوست ہے،مجھے مقابلہ دکھانے گھر سے ساتھ لے گیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ یوں توپولیس مقابلوں کی ابتدا مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کے دور میں ہوئی، لیکن وہ شہباز شریف کے پہلے دور میں شروع ہونے والے سو فیصد جعلی مقابلوں سے مختلف تھی، نواب آف کالا باغ نے بدمعاشوں کو ان کے گھروں کی دہلیز پر قتل کر دینے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا،جس میں کئی دوسرے بدمعاشوں کے ساتھ جگا گجر کو بھی ماراگیا ،ایک اور نامی گرامی بد معاش گوگا شیر بھی مرا، گوگا حمزہ شہباز کی بیوی ہونے کی دعویدار عائشہ احد کا ماموں تھا، عائشہ احد کے والد ملک آدی کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کے بھائی ملک واحد، ملک وادی کہلاتے تھے اور ان دونوں کا تعارف بھی شہر کے شریف بدمعاشوں کے طور پر ہی تھا، یہ لوگ روایتی بدمعاش نہیں ہوتے تھے،یہ مالدار لوگوں سے جگا ٹیکس لینے والے اور غریب لوگوں کے محافظ سمجھے جاتے تھے، اسی طرح اس دور میں بدمعاشی میں ایک بڑا نام اچھا شوگر والا تھا، جس نے ملنگی جیسی کئی بڑی بڑی فلمیں پروڈیوس کیں، اسی طرح یاسین بمبئی والا نامی بدمعاش نے بھی کئی فلمیں بنائیں، ان لوگوں پر کبھی یہ الزام نہ آیا کہ انہوں نے کبھی کسی فنکار یا ہنر مند کا معاوضہ ہڑپ کر لیا ہو، اور نہ ہی کسی خاتون فنکارہ کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا کوئی اسکینڈل سامنے آیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں جب شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کے پہلے شوہر غلام مصطفی کھر کو بھٹو صاحب نے پنجاب کا گورنر بنایا تو انہوں نے بھی صوبے کو ایک جاگیردار کے طور پر چلایا، ان پر بھی لوگوں کو پولیس کے ذریعے مروانے کے الزامات لگے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملتان کے تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او شیر علی خان نے کھر کے دور گورنری میں ایک حوالاتی کو تھانے سے باہر لے جا کر سرکاری پستول سے قتل کر دیا تھا، کم از کم قیام پاکستان کے بعد ملتان کی تاریخ کا یہ پہلا ماورائے عدالت قتل تھا۔ پھراسی کی دہائی کے آخر میں مسلم لیگ ن کا دور اقتدار شروع ہوا، شہباز شریف وزیر اعلی بنے تو نہ جانے کون سی نفسیاتی وجوہات تھیں کہ انہوں نے پولیس کو قتل کا لائسنس دیدیا، انہوں نے لاہور کے ایم اے او اور دیال سنگھ کالج کے طالب علم راہنماؤں کو ساتھ ملا لیا اورانہیں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ ان اسٹوڈنٹ لیڈروں میں ارشد امین چوہدری، پرنس طاہر اور عاطف چوہدری کے نام بھی تھے، بعد میں ارشد امین چوہدری کو اس کے مخالفین کے سامنے پولیس مقابلے کے نام پر قتل کرا دیا، اس وقت تک کلاشنکوف ایجاد نہیں ہوئی تھی،کرائے کے قاتلوں کے پاس اسٹین گن ہوا کرتی تھی،اس ہتھیار کو خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ کسی بھی ملزم کو ماورائے عدالت مار دینے کی جب پالیسی تیار کی گئی، اس وقت اس پالیسی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ عدلیہ کی حمایت بھی حاصل تھی، دلیل یہ دی گئی کہ ڈکیتیوں اور ریپ کے ملزمان عدم ثبوت پر عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں، لہٰذا آسان طریقہ یہ ایجاد کیا گیا کہ انہیں پکڑو اور قتل کردو،اس سرکاری پالیسی کے موجدوں میں دو آئی جی رینک کے افسر بھی شامل رہے، جنہیں اب تک نوازا جاتا رہا ہے، پالیسی یہ بنائی گئی کہ اگر کوئی مبینہ ڈاکو کسی شہری کو زخمی بھی کر دے اسے بھی مقابلے کے نام پر شوٹ کردو، میں نے ان دونوں اعلیٰ پولیس افسروں کے ساتھ بہت جرح بھی کی تھی، مگر وہ اس پالیسی کو کار ثواب اور عین عبادت گردانتے رہے، اسی پالیسی کے تحت بندے جیلوں سے نکال کر مارے گئے، ایک بار تو بیک وقت پانچ قیدیوں کو جیل سے نکلوا کر مار دیا گیا، کرائم رپورٹر جمیل چشتی ایک پولیس مقابلے کے بعد اس کا جائے وقوعہ دیکھنے گیا، وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا، پولیس والوں نے بتایا کہ ڈاکو گھر کے اندر تھا جسے مقابلے کے بعد مار دیا گیا،جمیل چشتی نے بہت تگ و دو کے بعد مبینہ ڈاکو کی لاش تلاش کی جو ایک پلنگ کے نیچے سے ملی،یہ لاش ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھی،پولیس والے اسے گولیاں مارنے کے بعد لاش کے بدن سے سرکاری زیور اتارنا بھول گئے تھے۔ شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں سے سب سے زیادہ قتل ایک ایس ایچ او عابد باکسر سے کروائے، عابد باکسر بیرون ملک مفرور ہے، دو تین ماہ پہلے سنا گیا کہ اسے گرفتار کرکے کراچی پہنچایا گیا ہے، اس کا ایک بیان بھی سامنے آیا ،وہ یہ بتانے کو تیار تھا کہ کس کس کو شہباز شریف نے اس کے ہاتھوں مروایا‘ پھر اس خبر پر گرد بیٹھ گئی ، نجانے وہ اب پھر کہاں ہے؟ لاہور میں سینکڑوں لوگوں کو دریائے راوی کے قریب بند روڈ پر مارا گیا، یہ ایریا کبھی لاہور کا ویران ترین علاقہ تھا، اب آبادی ہو جانے کے باوجود مقابلوں کیلئے اسی علاقے کو ترجیح دی جاتی ہے، ہر مقابلے کے بعد وہاں کے مکین ایک ہی بات بتاتے ہیں،، پولیس کی دو گاڑیاں آئی تھیں، ان سے بندے اتارے گئے، پھر انہیں بھاگنے کا حکم دیا گیا، جب بھاگے تو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، ایک بار تو مارے خوف کے ایک آدمی جسے پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے، ایک قدم بھی نہ اٹھا سکا اور اسے اسی جگہ مار دیا گیا۔ ان ویران علاقوں کے بدنام ہوجانے کے بعد ایک اور طریقہ اختیار کیا گیا جو اب زیادہ تر ایسے کیسز میں دیکھا جا رہا ہے، پولیس کسی علاقے میں کرائے کا مکان لیتی ہے، تھانے میں یا کہیں اور بندے مارنے کے بعد لاشیں ان مکانوں میں پہنچا دی جاتی ہیں، اس کے بعد پولیس کی گاڑیاں اسی مکان کے قریب پہنچتی ہیں، علاقے میں مشہور کر دیا جاتا ہے کہ اندر انتہائی خطرناک ڈاکو چھپے ہوئے ہیں، کئی کئی گھنٹے فائرنگ ہوتی رہتی تھی اور بالآخر اعلان کر دیا جاتا ہے چار ڈاکو مارے گئے تین فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، اب ان کا بھی تعاقب کیا جا رہا ہے، ایسے واقعات میں کرائے کے ان گھروں یا عقوبت خانوں میں لاشوں کے ساتھ زندہ لوگوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے اور اسی مقابلے کی آڑ میں انہیں بھی مار دیا جاتا ہے، کئی ایسی مثالیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ شہریوں کو حراست میں لے کر ان کے لواحقین سے بارگیننگ کی گئی کہ اپنے بندے کو مقابلے سے بچانا ہے تو اتنی رقم لے کر آجاؤ… کئی بار یہ بھی ہوا کہ لواحقین سے پیسے لینے کے باوجود بندے مار دئیے گئے۔ ان مقابلوں کے بعد پولیس والوں کی ترقیاں ہوتی ہیں اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ پولیس تھانوں میں بے شمار ایسے کیسز التواء میں پڑے ہوتے ہیں جن کے ملزمان ٹریس نہیں ہوتے، ایسے کیسز میں بھی جسے چاہا ملزم بنا دیا جاتا ہے، کسی بھی شہری کو تھانے کے اندر یا سر عام سڑک پر مار دو، جب شور مچے تو ایسے نہ حل شدہ مقدے اس پر ڈال دو، ایسا ایک تازہ ترین واقعہ کراچی سے سامنے آیا ہے، ناکے پر کھڑے پولیس اہلکار ایک رکشہ کو روکتے ہیں، سواریوں کو نیچے اتار کر بد ترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں پھر کوئی اہلکار بندوق سیدھی کرتا ہے اور ایک شہری کے سینے میں گولیاں اتار دیتا ہے۔ آجکل وڈیو کے زمانے میں ایسے بہت سارے جھوٹ کے پول از خود کھل جاتے ہیں، لیکن پولیس کے رویے میں پھر بھی کسی سدھار کی امید نہیں دکھائی دے رہی۔ سن دو ہزار دو میں الیکٹرانک میڈیا کے آ جانے کے بعد نام نہاد مقابلوں کی تعداد کم ہو جانی چاہئے تھی، مگر تعداد بڑھی، کیوں ؟ اس پر بھی اگلے کسی کالم میں روشنی ڈالیں گے۔ آپ حال ہی میں کراچی والا واقعہ دیکھ لیں۔ راؤ انوار کے ہاتھوں محسود اللہ نقیب اور دیگر تین نوجوانوں کے قتل کا کیس ابھی تک ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے، پتہ نہیں کیوں؟ طاقتور ہونے کے احساس نے پولیس کو بھیڑیا بنا رکھا ہے کیا یہ پولیس والے جانتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ خون ناحق ہے اور یہ واحد جرم ہے جس کی معافی اللہ پرور دگار نے اپنے پاس نہیں رکھی،ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے حدیث پاک ہے… قتل کرنے والے کا ساتھ دینے والے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔