ملک میں مردم شماری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کیسے کی جائے ؟ یہ ایک سوال ہے۔ اس کی تفصیل میں محکمہ مردم شماری نے بتایا ہے کہ محکمہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے تیار ہے جہاں کاغذ اور قلم کے روایتی استعمال کو ترک کرتے ہوئے ٹیبلیٹس اور آن لائن ایپلیکشنز کو استعمال کیا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے کیا تربیت یافتہ عملہ اور ڈیجیٹل سہولتیں محکمہ کے پاس موجود ہیں؟ ابھی چند سال پہلے محکمہ ریونیو پنجاب کا ریکارڈ ڈیجیٹل کیا گیا تو مشکلات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئیں اور ریکارڈ میں غلط اندراج بھی ہوئے اور عملہ نے رشوت کے ریٹ بھی بڑھا دیئے۔ مردم شماری پر قوم کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ ملک بھر میں کی جانے والی موجودہ مشق پر 34 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ باضابطہ طور پر یکم مارچ سے شروع ہو کر یکم اپریل تک مکمل ہو جائے گی۔موجودہ مردم شماری میں خود کار سسٹم بھی اپنایا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے جملہ کوائف آپ خود آن لائن درج کر سکتے ہیں۔ اس میں بھی غلط اندراج کا احتمال زیاد ہے کہ عام آدمی کو تو کوئی پتہ نہیں البتہ دو نمبر کام کرنے والے چالاک لوگ اس طرح کے عمل سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) جسے قومی مردم شماری کرانے کا کام سونپا گیا ہے، کی جانب سے حتمی نتائج جاری کرنے میں مزید 30 دن لگیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے نتائج تو بضابطہ طو رپر ابھی تک انائونس نہیں ہوئے۔ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ تیس دن میں درست نتائج مل جائیں گے؟ پاکستان میں اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔سنہ 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ تھی ۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری چند ایک ممالک میں آئی ہے۔ ان میں ایران اور مصر وغیرہ نے طریقہ کار کی تیاری پر کئی سال صرف کئے اس کے باوجود نقائص ابھی باقی ہیں جبکہ پاکستان میں یہ مردم شماری بڑی تیاری کے بغیر شروع کی گئی ہے۔ ارباب اختیار کو غریب اور مقروض ترین پاکستانی قوم کے معاشی حالات پر رحم کھانا ہو گا کہ گزشتہ مردم شماری کی طرح موجودہ مردم شماری کے بھاری اخراجات بھی ضائع نہ ہو جائیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گزشتہ مردم شماری جس کے نتائج سرکاری طور پر انائونس نہ ہوئے کے تمام اخراجات ذمہ داروں سے وصول کئے جاتے تاکہ آئندہ بہتری کی صورت سامنے آ سکتی۔ وسیب کے لوگوں کو گزشتہ مردم شماری پر تحفظات اس بناء پر بھی تھے کہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ملتان ملک کے بڑے شہروں کی فہرست میں ساتویں آٹھویں نمبر پر چلا گیاتھا۔ اور یہ بھی دیکھئے کہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ضلع رحیم یار خان کی آبادی 48لاکھ اور ضلع ملتان 27لاکھ بتائی گئی تھی۔ اسی طرح تیسرے نمبر پر ضلع مظفر گڑھ کی آبادی 46لاکھ بتائی گئی تھی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرائیکی علاقوں کے کروڑوں باشندے تلاش معاش کے سلسلے میں کراچی ، لاہور ، فیصل آبا د اور دیگر شہروں میں عارضی طور پر چلے گئے ہیں ، اور بہت کنبے بمعہ فیملی وہاں مقیم ہوئے ، جب مردم شماری کا عملہ دیہاتوں میں گیا تو اُن کو اور اُن کے گھروں کو گنتی میں شامل نہیں کیا، جبکہ سرائیکی وسیب میں آباد کاری کے نام پر جو لوگ یہاں آئے اُن کا شمار اُن کے سابقہ علاقوں میں بھی موجود ہے ۔ 2017ء کی مردم شماری پر کثیر سرمایہ خرچ ہوا مگر سرائیکی وسیب کے جو تحفظات تھے مذکورہ بالا کے علاوہ یہ بھی تھا کہ سرائیکی وسیب کے دو بڑے شہروں ملتان اور بہاولپور کے کنٹونمنٹ ایریاز کو الگ شمار کیا گیا ہے جبکہ ضلع لاہور کے دور دراز دیہات کو بھی شہری حدود میں شامل کر کے اسے پاکستان کا دوسرا بڑا شہر بنا دیا گیا ہے۔ ملتان کی شہری آبادی ایک طرف ضلع خانیوال دوسری طرف،مظفر گڑھ تیسری طرف، شجاع آباد، اور چوتھی طرف قصبہ لاڑ سے آگے نکل چکی ہے اور ہر آئے روز نئی ہائوسنگ اسکیمیں بھی بن رہی ہیں مگر یہ تمام علاقے ملتان شہر کی حدود میں شامل نہیں۔وسیب کے لئے بھی وہی فارمولا ہونا چاہیے جو لاہور کے لئے ہے۔آدم شماری کے بارے ایک تاریخی حوالہ یہ بھی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور رابرٹ تھامس مالتھس نے 1798 ء میں آبادی پر جو مقالہ لکھا تھا ، اس میں کہا تھا خوراک، روزگار اور وسائل کے اضافے کے اقدامات ہونے چاہئیں کہ غربت نا گزیر ہے ، کیوں کہ آبادی سلسلہ ہندسہ (8-4-2) کی شرح سے بڑھتی ہے اور اور معاشی سلسلے بحساب (4-3-2) سے مزید یہ کہ اگر قدرتی آفات جیسے زلزلہ ، قحط ، وبائیں یا جنگ اور رضا کارانہ ضبطِ تولید نہ ہو تو ایک ملک کی آبادی پچیس سال میں دگنی ہو جاتی ہے۔ کافی عرصے تک ان کے نظریات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ، لیکن دو سو سال بعد اس کی حقیقت واضح ہو گئی۔ آدم شماری نہ صرف معیشت کی جان ہے بلکہ سیاست ، تجارت، صحت ، تعلیم بلکہ وہ تمام شعبے جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہے آدم شماری کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ، آدم شماری کا رواج صدیوں پرانا ہے۔عہد نبوی ؐمیں سرکار دو عالمؐ کے ارشاد پر دو مرتبہ مسلمانوں کو گنا گیا اور حضرت عمرؓ نے تو آدم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ موجودہ دور میں انگریزوںنے اپنے ملک اور اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسے بڑی باقاعدگی سے نہ صرف نافذ کیا ، بلکہ شماریات کو اپنی انتظامیہ کا ایک بنیادی جزو بنایا، انگلشیہ دور ہر دس سال کے بعد آدم شماری ہوا کرتی تھی ۔1998ء کی آدم شماری میںملک کو چار صوبوں ، ایک وفاقی دار الحکومت ، ایک فاٹا، 112اضلاع، 432 تحصیلوں اور 48,349 مواضعات ، دیہی یا گائوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔