دل و دماغ شدید رنج والم کا شکار ہے، بے ہر رگ جاں میں حزن و ملال کی لہر یں لہو کے سنگ رواں دواں ایسے دکھوں اور المیوں پر ماتم کناں ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم مہذب دنیا کے انسان نہیں بلکہ درندہ صفت وحشی خونخوار جا نور ہیں جو اپنی حیوانی جبلت اور آندھی نفرت اور گھناؤنی فطرت اور بدبو دار تعصبات کا اسیر ہو کر جنگ و جدل اور دھشت گردی کی کارروائیوں میں ان پھولوں کو بھی روند ڈالتے ہیں جنہیں شاہد جنگلوں میں خونخوار جانور بھی نقصان نہ پہنچا ئیں مگر جب سینکڑوں فلسطینی ماں باپ کو معصوم بچوں کو کفن پہنائے پھولوں کے سنگت میں قبروں میں اتارتے دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو رو تا ہے، اپنے محلے پریڈ لین راولپنڈی کینٹ میں 17 معصوم بچوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا دکھ آج تک بے چین رکھے ہوئے ہے والد محترم بھی زخمی ہوئے۔ مگر تمام عمر معصوم بچوں کی شہادتوں کے دکھ میں ذہنی تکلیف میں مبتلا رہے میں آج تک وہ پا نچ سالہ بچے کے الفاظ نہیں بھول پاتا ہوں جو سجدے میں لیٹ کر اپنے بڑے بھائی کو کہتا ہے بھائی جان لاالہ پڑھ لو مرنے پر درد نہیں ہوگا ایسا ہی المناک واقعہ 2014 میں پشاور میں سو سے زائد بچوں کا آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کی شہادتوں سے پوری قوم کے دل زخموں سے چور ہیں غزہ میں ملبے سے نکالی گئی بچی اپنے انکل سے پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ مر گئی ہے اور اسے قبرستان لیجایا جا رہا ہے اسے کون بتائے کہ پھول بچے قبرستان جانے کے لیے اللہ دنیا میں نہیں بھیچتا ہے مگر اس نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن ہوں یا سنگدل طالبان ہوں، سبھی اپنے بدنما سوچ اور فطرت میں چنگیز خان اور ھلاکو خان کی طرح عورتوں بچوں اور مردوں کو اپنی وحشت کی تسکین کے لیے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں، ہم ہالوکاسٹ کو بھی انسانیت کے خلاف ایک بڑا جرم خیال کرتے ہیں مگر اب اس المیے کا شکار قوم کی نسل بے گنا فلسطینیوں کی نسل کشی کر کے اپنے لاشعور میں چھپی تلخیوں اور محرومیوں کا بدلہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر کے کیوں لے رہے ہیں ہمارے وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ موسی علیہ السلام کی پیدائش پر فرعون نے بچوں کو قتل کیا تھا مگر آج بدقسمتی سے موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار کہلانے والے فرعون کے نقش قدم پر پر چل رہے ہیں فرعون نے تو ایسا کام اس لیے کیا تھا کہ وہ کسی کالج اور یونیورسٹی میں انسانی حقوق کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم تھا وہ آج کی مہذب دنیا عدل و انصاف اور آزادی انسان اور جمہوریت کا چیمپئن نہیں کہلاتا تھا مگر آج کی مغربی دنیا اور جی سیون ممالک اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے مطابق غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے اسرائیل کی بمباری سے آج تک سا ڑھے چار ہزار معصوم بچوں اور تین ہزار ماؤں سمیت 11 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں روز فلسطین میں پھولوں کے جنازے اُٹھ رہے ہیں ،پاکستان میں مائیں اپنے بچوں کے تحفظ کے ساتھ فلسطینی بچوں کے لیے بھی آبدیدہ ہیں۔ایک پروگرام میں ایک خاتون فلسطینی بچوں کے لیے بلک بلک کر آہ و فغاں کر رہی تھی میری بیٹی ایک غیر ملکی ادارے کے لیے بڑی پرکشش مراعات کی نوکری کے لیے دیہات میں رہنے والی خواتین کے انٹرویو کر رہی تھی، ایک خاتون نے کہا کہ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر پینل میں غیر ملکی مائنڈ نہ کریں اس عظیم عورت نے کہا کہ کہ وہ سنگل مدر ہے اسے دو لاکھ کی اس نوکری کی ضرورت بھی ہے مگر مجھے یہ بتایا جائے کہ سپانسر مشروبات کمپنی اگر اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہے تو میں کیسے یہ نوکری کر سکوں گی جب میں روز وہاں پر بچوں کو مرتے دیکھتی ہوں کیا خوب جذبے اور قربانی والی خاتون ہے۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابط دفتر کے سربراہ مارٹن گر فتھس نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر لکھا ہے"جب آٹھ سالہ بچہ آپ کو بتائے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا تو کوئی بھی مایوس ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے" یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ ہزار سے زائد بچے لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور یہ ایک انتہائی ہولناک تصور ہے کہ ان کے باہر آنے کی امید انتہائی کم ہے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں بدترین مصائب کا سامنا کرنے والے 11 لاکھ بچوں کی خاطر فوری جنگ بندی کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے تمام راستے کھولے جائیں ،غزہ میں پانی کی قلت کے باعث بچوں کی اموات کا اندیشہ بڑھ رہا ہے جہاں صاف پانی کی فراہمی ضرورت کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے کیونکہ پانی صاف کر نے والے پلانٹس یا تو ایندھن کی کمی کے باعث چل نہیں رہے ہیں یا اسرائیلی بمباری نے انہیں نقصان پہنچا کر ناکارہ کر دیا ہے ۔ دلخراش مناظر دیکھ کر انسان دکھوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے ایک بچہ اپنے تبا شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا زارا وقطار رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کاش یہ خواب ہو لندن میں ایک فلسطینی نوجوان احمد کی نوکری لگتی ہے وہ اپنے خاندان کے 15 بچوں کو ساحل سمندر پر ٹریٹ کرنے کے لیے پیسے بھیجتا ہے۔ بچے انتہائی خوش وڈیو کال پر اپنے ماموں سے خوش گپیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اگلے روز ان کے گھر پر اسرائیلی بمباری سے تمام کے تمام پھول مسل دئیے جاتے ہیں اور اب احمد دنیا کے طاقتور حکمرانوں سے پوچھتا کہ کون سی جنگ میں بچوں اور بے گنا نہتے شہریوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ ہسپتالوں، پانی اور بجلی کے مراکز، گھر اور مارکیٹس پر بمباری کی جاتی ہے۔ بچے تو پھول ہوتے ہیں جو کسی ایسے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے ہیں کہ جان کیسے بچانی ہے؟ نفرت جرم ہے اور ہم بے بس عوام سوائے رونے دھونے کے کیا کر سکتے ہیں ۔ ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا