نواز شریف کی سزا کے بعد بیٹی کے ساتھ۔۔دلیرانہ واپسی ن لیگ کو مہنگی پڑنے والی ہے، پچیس جولائی کا دن لندن میں ہی گزار لیتے تو شاید ہمدردی کے چار ووٹ مل جاتے،سیدھے جیل میں پہنچا دئیے جانے کے بعد ان کے عوام دلبرداشتہ ہوئے، کہیں کوئی قابل ذکر احتجاج ہوا نہ کوئی مظاہرہ، البتہ ان کے’’ ہمدرد میڈیا‘‘نے احتجاج اور مظاہروں کی خبریں ضرور نمایاں شائع کیں،آجکل تیس لوگوں کو عوام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا ہجوم دکھانا بھی کوئی بڑا کمال نہیں رہا اور یہ ہے بھی پاکستان، شہباز شریف ہوں یا ان کے دوسرے ساتھی، کسی نے بھی اپنے قائد کی واپسی کو اہمیت نہ دی، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ کسی نے بھی کچھ نہ کیا، نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے لندن جانے سے پہلے اچھے جلسے کئے تھے، ان میں لوگ موجود ہوتے تھے، جی ٹی روڈ مشن سے بہت حد تک کامیابی حاصل کی، نواز شریف کے بیانیہ کو بھی پذیرائی ملی، خیال کیا جا رہا تھا کہ ن لیگ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے گی، مگر نواز شریف اور ان کی بیٹی کو بھریا میلہ چھوڑ کر لندن جانا پڑا، آج لندن جانے کا فیصلہ باطل نظر آ رہا ہے، ن لیگ نواز شریف کے کہنے پر نظریاتی پارٹی نہیں بن سکتی، نظریہ اور ن لیگ دو علیحدہ علیحدہ پرندوں کے نام ہیں، نواز شریف کا جیل جانے سے پہلے دیا گیا یہ بیان کہ، کوئی سزا اور کوئی جیل نواز شریف اور عوام کو جدا نہیں کر سکتی، ایک مزاحیہ مکالمہ بن گیا کیونکہ نواز شریف اور عوام کا کبھی کوئی رشتہ ہی نہیں رہا، یہ بات سب سے زیادہ شہباز شریف جانتے ہیں، اسی لئے انہوں نے عوام کے پاس جانے یا انہیں کال دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، جیل جانے کے بعد نواز شریف،ان کے داماد اور بیٹی کو اپنی اپنی پڑ گئی، انہوں نے جیل میں شاہانہ سہولتیں نہ ملنے کے رونے شروع کر دیے، ان کے مطالبے پورے کر دئیے گئے ہیں، انہیں کم از کم اپنے حقوق کا تو پاس ہے اور یہ اپنے لئے تو آواز اٹھاتے ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے، مجھے ایک شہری ہونے کے ناطے عمر بھر اس بات کا ملال رہے گا کہ نیوز چینلزپر بیٹھ کرنواز شریف کے لئے آواز بلند کرنے والے بھی منظر سے غائب ہوگئے، بھائی بھائی رہا نہ کوئی ساتھی، ساتھی رہا، بیان چھاپنے والے اور بیان جاری کرنے والے سب لوگ زندہ باد۔

بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کے حقوق کیلئے آواز بلند کی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ایک اور جامع میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے، نواز شریف کی سیاسی مدد اس وقت صرف پاکستان پیپلز پارٹی کر سکتی ہے، یہ جمہوری تقاضہ بھی ہے، لیکن بلاول بھٹو زرداری یہ بھی یاد رکھیں کہ شہید بی بی کے ساتھ میثاق جمہوریت کا شریف برادران نے کیا صلہ دیا تھا، بلاول کا بیان وقت کا تقاضہ بھی ہے، لیکن دوسری جانب ن لیگ ہے جس نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے آؤٹ کرانے کیلئے کیا کیا سازشیں نہ کیں۔ 

ہو سکتا ہے کہ عمران خان بازی لے جائیں، وزیر اعظم بھی بن جائیں، لیکن عمران خان کی روح میں پھنسا ہوا مولوی پاکستانی عوام کو مزید مشکلات میں بھی مبتلا کر سکتا ہے، لوگوں کو تو یہی لگ رہا ہے مگر خود عمران خان کو یقین نہیں آ رہا، اسی لئے کالعدم جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی بھی حمایت حاصل کی جا رہی ہے، عمران خان ایک اور ظلم یہ کر رہے ہیں کہ روزانہ کسی نہ کسی طرح باور کرا رہے ہیں کہ انہیں عسکری مدد بھی حاصل ہے، عمران خان یہ بڑی زیادتی کر رہے ہیں، کسی اور کے ساتھ نہیں خود اپنے آپ کے ساتھ۔

٭٭٭٭٭

کینڈا میں مختصر قیام کے باوجود بہت سارے دوستوں سے ملاقاتیں ہو گئیں، ڈاکٹر اختر نعیم پچھلی تین دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور پوری مجلسیں سجا کر رہ رہے ہیں، ان کی بیٹی ڈاکٹرملیحہ نعیم کی شادی کی رسومات میں تمام دوست احباب موجود اور شریک رہے، جہاں بچی بیاہی گئی ہے وہ سارا گھرانہ بھی ڈاکٹروں کا گھرانہ ہے، اس فیملی کو بھی دوستوں کی تعداد بڑھاتے رہنے کا عارضہ لاحق ہے، دونوں جانب سے شادی کی رسومات کے بیشتر شرکاء اجنبی نہ تھے، جن لوگوں سے پہلی بار ملاقات ہوئی ان کی تعداد بھی پرانے دوستوں سے کم نہ تھی، پروفیسر ڈاکٹر پرویز مسعود اپنے بیٹے ڈاکٹر عاطف پرویز کی بارات کالگری سے لے کر آئے، کالگری ٹورنٹو سے چار گھنٹے کی ہوائی مسافت پر ہے، سارے باراتی پک نک پر آئے ہوئے لگ رہے تھے،چار دن بہت رونقیں لگی رہیں، ہماری دیرینہ دوست عارفہ مظفر نے مسی ساگا میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی اور ایشیائی صحافیوں نے شرکت کی، اس تقریب میں خطاب کے بعد مجھ پر عقد کھلا کہ میں آواز کا والیم بڑھائے بغیر بھی اچھی گفتگو کر سکتا ہوں، آوارگی کی نصف صدی بعد پہلی بار مجھے اپنی تقریر خود بھی اچھی لگی کاش ایسی تقریروں والا زمانہ واپس لوٹ آئے جب ان تقریروں کے نتائج بھی سامنے آیا کرتے تھے۔

نواز شریف اور ان کی بینظیر بیٹی مریم نواز کی جیل روانگی ٹورنٹو میں دو دن ٹاک آف دی ٹاؤن بنی رہی،لوگوں نے ن لیگ اور اس کی قیادت کے مستقبل کے بارے میں خود ہی سوال کئے اور خود ہی جواب دیتے رہے، میں نے کینیڈا میں رہنے والے پاکستانیوں کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو نواز شریف اور ن لیگ کو قصہ پارینہ سمجھ بیٹھے ہیں، سو میں سے دو یا تین لوگ ایسے ملتے جنہیں اس پارٹی اور اس کی قیادت کا فیوچر نظر آتا ہے، باقی سب لوگ سیاست کے اگلے اور نئے دور میں داخل ہوتے دکھائی دیے،ایک ن لیگی بھی ملا جس نے مجھ سے وعدہ لینا چاہا کہ میں آئندہ نواز اور (ن) کے بارے میں کچھ منفی نہیں لکھوں گا، جواز اس نے یہ پیش کیا کہ مرے ہوئے لوگوں کی خامیاں خرابیاں فراموش کر دینی چاہئیں۔۔( اس تجویز یا درخواست پر غور کیا جا سکتا ہے اگر نواز شریف کے جیل کے اندر سے جعلی پیغامات آنے بند ہو جائیں،) میرے لئے یہ بات حیران کن تھی کہ تارکین وطن نے مجموعی طور پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے جیل جانے کو دل پر نہیں لیا، محسوس یہ ہوا کہ مجموعی طور پرامیگرنٹس سابق وزیر اعظم کو دی گئی سزا کو درست تصور کرتے ہیں، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ نواز لیگ ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود تارکین وطن کو پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا اختیار نہ دلا سکی، اس بار بھی ن لیگ نے جاتے جاتے اپنے مفاد کے سب کام کر لئے،قوانین تک پاس کروا لئے مگر امیگرنٹس کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہ کیا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ملے جو نواز شریف پر الزامات کو تو درست مانتے ہیں، مگر انہیں دی گئی سزا کو تسلیم نہیں کرتے ، کہتے ہیں، چور نواز شریف ہے تو سادھو ، دوسرے بھی نہیں۔

نواز شریف نے جیل جاتے ہوئے جب یہ بیان داغا کہ جیل اور سزائیں انہیں اور عوام کو ایک دوسرے سے دور نہیں رکھ سکتیں تو ٹورنٹو میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ،، نواز شریف صاحب عوام کس چڑیا کو سمجھتے ہیں؟، کیا وہ آج بھی بائیس کروڑ لوگوں کو احمق تصور کرتے ہیں؟ایک صاحب کہنے لگے، نواز

 شریف جب بھی جدھر بھی دیکھتے ہیں انہیں ہر شخص قصیدہ گو نظر آتا ہے اور میاں صاحب خیال کر لیتے ہیں کہ ان کی رعایا میں سب کے سب عمرو عیار ہیں اور سب ان کے نوازے ہوئے ہیں

پھر شہباز شریف اور ان کی والدہ محترمہ جیل ملاقات کیلئے گئیں تو ہر کوئی اس ملاقات کی علیحدہ علیحدہ کہانی گھڑے بیٹھا تھا، انہی چہ میگوئیوں کے دوران شہباز شریف نے جیل میں بند بڑے بھائی کی مشکلات بیان کیں، ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کم از کم جیل میں بھائی کو جاتی عمرہ والی آسائشیں نہیں مل رہیں، ان کا میٹرس زمین پر بچھا ہے،وہاں ایک اچھا ،شاہانہ بیڈ ہونا چاہئے تھا،نواز شریف نے اور بھی دکھڑے سنائے ہونگے، ہو سکتا ہے انہوں نے جیل میں ماتحت عملے کی بھی ضرورت محسوس کی  ہو، ہمارے خیال میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے سارے قیدیوں کی ڈیوٹی نواز شریف کے ساتھ لگا دینی چاہئیے تاکہ وہ جیل میں بیٹھ کر بھی اپنے ان عوام کی خدمت کر سکیں جن عوام کی خدمت کرتے کرتے نواز شریف کو بیٹی سمیت جیل جانا پڑا،

کاش ! نواز شریف کو پتہ ہوتا کہ پاکستان کی تمام جیلوں میں قیدیوں کو رکھا کیسے جاتا ہے۔؟ میں نے 1978 ء سے 1981ء تک پنجاب اور سندھ کی سات جیلیں کاٹی ہیں، لاہور کے شاہی قلعہ اور لال قلعہ میں بھی زیر زمین سیلوں میں مہینے گزارے، کاش نواز شریف کو ہماری کاٹی ہوئی جیلوں کے ایک دن کا احوال ہی پتہ ہوتا، پاکستان کے لئے اور پاکستان کے عوام کی آزادی کیلئے آوازیں اٹھانے کے جرم میں ان عوام پر( جن سے نواز شریف واقف ہی نہیں) جو گزرتی رہی، کاش، اس سابق وزیر اعظم کو بھی اسی طرح جیل کاٹنے کا موقع ملے، ہم سے جیلوں میں جو مشقتیں لی گئیں، ویسی ہی مشقتیں نواز شریف سے لینے والا بھی کوئی ہو، صرف ایک گھنٹے کے لئے ان سے کوئی مشقت کروالی جائے۔

 نواز شریف صاحب پاکستان میں جمہور اور جمہوریت کے لئے قربانیاں جو لوگ جوعوام دیتے رہے، ان کے چہرے تو آپ نے کبھی دیکھے ہی نہیں، آپ تو اپنے مراعات یافتہ ٹھیکیداروں اور قبضہ مافیا کو عوام تصور کئے بیٹھے رہے ، آپ جرنیلوں کی پیداوار ہونے کے باوجود جمہوریت کے چیمپئن بنے رہے، سچ تو یہ ہے کہ آپ جن ووٹوں سے آج تک وزیر اعظم بنتے رہے وہ ووٹ تو کبھی آپ کو دیے ہی نہیں گئے اب مکافات عمل شروع ہوا ہے تو اسے دیکھیے بھی اور بھگتیے بھی۔

نواز شریف صاحب! پاکستان سے آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے ماؤں کے ساٹھ ہزار بیٹوں نے اپنی ننگی پیٹھوں پر کوڑے برداشت کئے تھے، کیا عوام کی قربانیوں کا ثمر آپ تھے؟ نہیں آپ تو آمریت کے سانسوں سے نکلا ہوا وہ زہر تھے، جسے عوام کو تین دہائیوں تک پینا پڑا، آپ نے بہت مال کمایا، غریبوں کے ٹیکسوں کے پیسے سے آپ عیاشی بھی کرتے رہے اور حکمرانی بھی، عوام بے چارے تو سمجھ ہی نہ سکے کہ آپ کس چور راستے سے داخل ہوئے اور عوام کا سب کچھ لوٹ کر نئے نئے محلات تعمیر کرتے رہے۔جیل میں کچھ دیر تو ٹھہرو نواز شریف صاحب۔ عوام ملنے آ رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لا پتہ افراد کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے جو ریمارکس دیے، ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، عدلیہ اور انتظامیہ کو کون کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ ججوں کو دھمکیاں کون دے رہے ہیں ؟مقدمات اپنی مرضی کے ججوں کے سامنے لگوانے کی کوشش کون کرتے ہیں؟ عدالت سے اٹھنے والے ان سوالات کے جواب نہ دیے گئے تو مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کو مسمار ہوتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔