اس کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو کسی سیاسی دشمن کی ضرورت نہیں‘ سیاسی گرفتاریوں سے لے کر صحافیوں پر مقدمات کے اندراج اور معیشت کے بدترین بحران تک حکومتی طرز عمل نے اسے بری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 50لاکھ ڈالر یومیہ افغانستان سمگل ہو ر ہے ہیں‘افغان کرنسی 5.6فیصد مہنگی ہوگئی جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں 37فیصد کمی ہوئی آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کبھی اس دھندے میں ملوث قوم کے مجرم قانون کے کٹہرے میں سزا وار بھی ٹھہرائے جائینگے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار مدت سے کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کے کاروبار میں ملوث بینکوں اور دیگر ذمہ داران کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائیگی لیکن کچھ سامنے نہ آسکا۔اس اعتراف کے باوجود جو گورنر اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ماہ کیا کہ ڈالر کے کاروبار میں ملوث کچھ بینکوں کا پتہ لگا لیا گیا ہے۔ بہرکیف ملک میں مہنگائی و بیروزگاری اور غربت نے عام آدمی کو اس نہج پر پہنچادیا ہے جہاں انسان دنیا میں جہنم جیسی سزا بھگتنے پر مجبورہوتا ہے لیکن دوسری طرف آپ حکمرانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیجئے‘پکڑ دھکڑ‘تشدد‘مقدمات کی بوچھاڑ اور ریاستی ظلم و جبر پر اکتفا کرکے سوچ رہے ہیں کہ انکے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا‘ شاید موجودہ حکمران بھی اس زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں جس میں دنیا بھر کے ماضی کے حکمران ہوتے رہے اور آج اس روئے زمین پر ان کا نام و نشان تک نہیں۔ حکمرانوں کیلئے سب سے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی ناکامی تسلیم کریں اور گھر کو چلتے بنیں مگر اقتدار کی چاہت ان کی آنکھیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دھندلا چکی ہے‘اسی لئے ایسے اقدامات روز کئے جاتے ہیں جس پر ملک بحرانی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ وہ ہر ایسا کام کررہے ہیں جس پر کہا جاتا ہے کہ ان کو کسی سیاسی دشمن کی ضرورت نہیں‘ روز اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں اور اقتدار کی بقاء کی جستجو میں مزید رسوائی ان کا مقدر ٹھہر تی ہے‘کیا ادویات کی قیمتوں میں 350فیصد اضافہ‘ اس بات کا اعلان نہیں کرتاکہ انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو چکی ! حکمران ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا کٹھ ہیں‘یہ اپنے مخالف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی تگ ودو میں اپنے فرائض تو کب کے فراموش کرچکے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ہر روز آئی ایم ایف کا وفد کڑی سے کڑی شرائط کیساتھ ہماری تذلیل کرتا ہے۔بھارت کا میڈیا ہر نیوز بلیٹن میں ہمارا مذاق اڑا رہا ہے‘پوری دنیا میں بین الاقوامی میڈیا کی نظریں پاکستان کے معاشی بحران اور حکومت کی نااہلی پر ہیں‘اس کے باوجود یہ حکمران گمان رکھتے ہیں کہ ان کی حکومت میں آخر کار دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ تسلیم کرلیجئے:گھاٹ گھاٹ کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا تجربہ بری طرح فلاپ ہوچکا ہے‘ عوام اور ملک اس کی سزا بھگت رہے ہیں‘آئندہ حالات سب کو کسی بے چارگی کا شکار کردینگے‘ لہٰذا بہتر ہے کہ تماشوں کی بجائے انتخابات کی طرف قدم بڑھائیں‘کیا موجودہ بدترین‘سیاہ اور خوفناک دور میں حکمرانو ں کو زیب دیتا ہے کہ وہ با ہم شیر و شکر ہو کر ایسے فیصلے کریں کہ آئندہ انتخابات میں تاخیر کیلئے کوئی قانونی یا آئینی راہ نکالی جائے؟ کیا گورنر کے پی کے جس طرح کے جواز انتخابات کی تاخیر کیلئے گڑھ رہے ہیں‘ یہ انکا کام ہے؟ بالکل نہیں‘ عدالت سے اگر پی ڈی ایم نے انتخابات میں تاخیر کی غرض سے رجوع کیا تو کیا عدالت کسی غیر آئینی آپشن کی دلیل کو قانون کی کسی شق کے تحت قبول کر پائیگی؟ آئین واضح ہے:انتخابات کے التوا یا اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں‘ آئین کے آرٹیکل 224 میں پابند کیا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے روز کے اندر انتخابات ہونگے‘ آئین کے آرٹیکل 105 (3(A) کے تحت گورنرز نے ہی عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنی ہے اور وہ پابند ہے کہ نوے دنوں کے بعد کی تاریخ مقرر کرے‘ البتہ کسی ہنگامی حالات کو جواز بنا کر انتخابات موخر کرنے کیلئے دلائل دے سکتے ہیں لیکن حالات کچھ بھی ہو گورنر نے ہر حال میں انتخابات کی تاریخ دینی ہے‘ملک میں ایمرجنسی یا ہنگامی حالات کا آئین کے مطابق نفاذ ہو تو تاخیر کی جاسکتی ہے مگر اس کیلئے آئین کے آرٹیکل 232کے تحت ایمر جنسی کا اختیار صدر مملکت کو ہے‘وہ اگر ایمرجنسی جیسے حالات کے نفاذ کیلئے مطمئن ہو ں تب اس کا نفاذ ہوسکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی دس روز کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس کی منظوری ضروری ہے‘ان آئینی پابندیوں کے باوجود پنجاب اور کے پی کے کے گورنرز نے الیکشن کمیشن کے خطوط پر ایک جیسے جواب دیئے‘اب کیا یہ کہنے اور سمجھنے میں کوئی کسر باقی ہے کہ حکمران خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں اور ا نکی اس حرص اقتدار میں ملک‘قوم اور معیشت تباہ ہوتے جارہے ہیں۔ خدارا پی ڈی ایم کے فلاپ تجربے سے ملک کو باہر نکلنے میں انتخابات کے آپشن کو آئین کے مطابق کھلا رہنے دیجئے‘ عوام کی ساری امید عدلیہ سے ہے وگرنہ حکمران جس ڈگر پر جس ڈھٹائی سے رواں دواں ہیں‘کوئی شائبہ نہیں کہ یہ ملک کی معیشت مکمل طور پر دیوالیہ کردیں گے اور ان سے جب سوال کیا جائیگا تو کہیں گے کہ عمران خان اس کا ذمہ دار ہے اور اگر تنقید کی جائیگی تو ملک بھر میں مقدمات کی بارش شروع کردی جائے گی۔