بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ۔ چار میں سے ایک بھی سٹی میئر کی سیٹ تحریک انصاف نہیں جیت سکی۔ اسد قیصر، شہرام ترکئی، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب ، شہریار آفریدی، شبلی فراز، شاہ فرمان، علی محمد خان اور عاطف خان جیسے ناموں والے بڑے بڑے ضلعے بد ترین شکست سے دوچار ہوئے۔ ان انتخابات نے جہاں ایک طرف پرویز خٹک اور محمود خان کا فرق سب کے سامنے واضح کیا ہے وہیں دوسری طرف تنظیمی ڈھانچے کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ہر ہر ضلع کا الگ الگ تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس تحریر میں ہم چار شہروں میں سٹی میئر کی نشست پر پی ٹی آئی کی شکست کی ممکنہ وجوہات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ پشاور سے جمعیت علمائے اسلام نے سابق ناظم اعلی حاجی غلام علی کے بیٹے زبیر علی خان کو میدان میں اتارا۔ حاجی غلام علی فضل الرحمن کے سمدھی ہیں۔ لیکن ان کے بیٹے کی الیکشن میں اعلی کارکردگی کے پیچھے جمعیت علمائے اسلام کا کم اور حاجی غلام علی کا کردار زیادہ ہے۔ غلام علی ایک متحرک سیاست دان ہیں اور پشاور کے لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے ایک اجنبی کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتار دیا۔ رضوان بنگش دبئی کی فلائیٹ سے اترے اور ٹکٹ لے کر میدان میں آ گئے۔ وہ نہ تو پی ٹی آئی کے ممبر ہیں ، نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کے لیے وہ ایک بالکل نئی شخصیت تھے، جن کے چہرے اور نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ رضوان بنگش کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ وہ پشاور کے نہیں ہنگو کے رہنے والے ہیں۔ پشاور میں انہوں نے الیکشن کے لیے پیسہ تو خوب خرچ کیا لیکن حاجی غلام علی کی مقبولیت کو شکست نہ دے سکے۔ خود پی ٹی آئی کے کارکنان بھی ایک اجنبی کو ٹکٹ دینے پر ناراض دکھائی دیے اور شاہ فرمان کی سفارش پر شکوک کا اظہار کرتے رہے۔ اس شہر میں تیسرا امیدوار بھی ایک طاقتور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ارباب زرک خان ارباب عالمگیر اور عاصمہ ارباب عالمگیر کا بیٹا ہے۔ اس انتخابات میں زرک خان نے بھی 45 ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ حاجی غلام علی اور ارباب فیملی کے خلاف ایک دبئی سے آئے اجنبی کو کیا سوچ کر میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ، کوئی نہیں جانتا۔ نتائج سے صاف لگتا ہے پی ٹی آئی ورکرز نے اپنی ناراضی کا اظہار کر دیاہے ۔ کوہاٹ میں پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دے دی۔ یہاں بھی ٹکٹ کی غلط تقسیم شکست کی بڑی وجہ بنی اور نتائج سے یہ واضح بھی ہو گیا۔ اس شہر میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے آٹھ امیدوار میدان میں اترے۔ بعد کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے طاقتور امیدوار شفیع اللہ جان تھا ۔ لیکن سیف اللہ نیازی کی نگاہ انتخاب سلمان خان شنواری پر جا ٹھہری اور انہیں ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ سلمان شنواری کو ٹکٹ ملنے کے بعد شفیع اللہ جان ناراض ہوئے اور انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ کسی کو تشویش نہ ہوئی کیہپی ٹی آئی کے دو امیدوار یہاں ایک دوسرے کے ووٹ توڑنے میں لگے ہیں ۔ نتائج آئے تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی کے ایک ورکر شفیع اللہ نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہوئے ساڑھے 25ہزار ووٹ حاصل کر لیے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے سلمان شنواری نے 16 ہزار ووٹ حاصل کیے۔دونوں کے ووٹوں کو جمع کریں تو 41 ہزار سے زیادہ ووٹ بنتے ہیں ، اس لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جے یو آئی کے قاری شیر زمان 34 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیا ب ہو گئے ، یوں یہاں پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دے دی جبکہ شہر یار آفریدی اور ضیاء اللہ بنگش منہ دیکھتے رہ گئے۔ بنوں میں پی ٹی آئی نے 32 سالہ نوجوان ورکر اقبال جدون خان کو ٹکٹ دیا جس نے سابق وزیر اعلی اکرم درانی کے داماد عرفان اللہ درانی سے اچھا مقابلہ کیا لیکن چھاتی دھاگے کو نہ لگ سکی۔یہ مقابلہ سخت تھا، اکرم درانی کے 40 سالہ تجرنے کے آگے 32سال کی عمر کا نوجوان کھڑا تھا۔ اقبال جدون اگرچہ پرانا اور محنتی ورکر ہے لیکن زیادہ مالدار نہیں ہے الیکشن میں زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکا۔ ان سب کے باوجود عرفان درانی کے 59 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں 47 ہزار لینے میں کامیاب رہا ۔ بنوں میں پی ٹی آئی نے ٹکٹ تو صحیح امیدوار کو دیا لیکن کمزور انتخابی حکمت عملی نے اقبال جدون کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں سٹی میئر کی سیٹ کے لیے تو ٹکٹ جاری کیا گیا ، لیکن نیچے کونسلرز کی سطح پر پی ٹی آئی نے کسی کو ٹکٹ ہی نہ دیا اور وقت کمی کا بہانہ بنا کر انہیں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتار ا۔ یوں ٹکٹ کے سارے امیدوار اپنے اپنے طور پر لڑتے رہے اور اوپر سٹی مئیر کو کسی نے سپورٹ نہ کیا۔ حلقے سے تعلق رکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ اگر کونسلرز کی سطح پر ٹکٹ جاری کیے گئے ہوتے تو اقبال جدون ایک گروپ کی شکل میں الیکشن لڑتے اور پی ٹی آئی کا پورا گروپ انہیں سپورٹ کرتا۔ اب آجائیے مردان میں ۔ مردان میں پی ٹی آئی کی حالت پہلے ہی سے پتلی ہے۔ جنرل الیکشن میں بھی علی محمد خان محض دو ہزار ووٹوں سے سیٹ جیت پائے تھے ،جبکہ محمد عاطف اپنی ایم این اے کی نشست ہار گئے تھے۔امیر حیدر خان ہوتی نے اس نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایسے میں مردان میں پی ٹی آئی نے ایک کمزور امیدوار لکھکر خان کو میدان میں اتارا۔دوسری طرف عوامی نیشل پارٹی کے ایک ایسے لیڈر حمایت اللہ میار مقابلے میں تھے جو سٹوڈنٹ لائف سے سیاست میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنی زندگی میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔ وہی ہوا جس کی توقع تھی ، حمایت اللہ نے پی ٹی آئی کے کمزور امیدوار کو قریب بھی نہ آنے دیا اور 26ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔ دوسری طرف پرویز خٹک نے اپنے بیٹے کو ایک ایسے امیدوار کے مقابلے میں کامیابی دلائی جسے دیگر جماعتوں کی بھی حمایت حاصل تھی،اس حلقے میں بلاول نے جا کر جلسہ بھی کیا، ن لیگ اور جماعت اسلامی نے اپنے امیدوار اُس کے حق میں بٹھائے مگر پرویز خٹک کا بیٹا واضح اکثریت سے جیت گیا، شاید اب پی ٹی آئی کو پرویز خٹک اور محمود خان کا فرق پتہ چلا ہو گا۔