پاکستان 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے آمریت، قتل و غارت، مظاہروں اور جھڑپوں، سیاسی انتشار اور تشدد کا شکار رہا ہے۔ تاہم موجودہ بحران ایک ایسے خطرناک موڑ میں داخل ہوگیا ہے جس کے نتائج سے ہر خاص و عام خوف زدہ نظر آرہے ہیں اور اگر کسی کو فرق نہیں پڑ رہا تو وہ اشرافیہ ہے۔ جن کا لوٹ مار کرنا تو پاکستان کے ساتھ ہے لیکن جینا مرنا سب کچھ ملک سے باہر ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جنگ نے ملک کو اندرونی طور پر عدم استحکام کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔ بلکہ اس کی سلامتی اور بقا کو علاقائی اور عالمی سطح پر بھی خطرہ ہے۔ یہ حالات جمہوریت، معیشت، معاشرے اور اداروں کو کمزور اور انتہا پسند گروہوں کو افراتفری اور تشدد سے فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کر ر ہے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال اپنے پڑوسیوں بالخصوص بھارت اور افغانستان کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادیوں جیسے چین، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔ جس طرح اتحادی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ملک کا دوسرا بجٹ پیش کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں اور پاکستان کی جمہوریت محاصرے میں ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے عدم اعتماد نے آزاد خارجہ پالیسی پر عمل درآمدکو جمودکا شکار کردیا ہے۔ ایسا بہت کم سننے کو ملے گا کہ کسی ملک کا وزیراعظم اعتراف کررہا ہوکہ ملک کا بجٹ عوام کی خواہشات کے بجائے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لئے بنایا گیا ہے۔ عوام دوست بجٹ کے دعوے جو کم و بیش ہر حکومت کرتی تھی ، اس بار اتحادی حکومت سے سننے کو نہیں ملا بلکہ اسے محتاط بجٹ قرار دینے پر مصر ہیں ۔ عوام سے پوچھیں کہ اس بجٹ میں کیا ریلیف ملا تو سیدھا سوال ملتا ہے کہ کیا اس سے پہلے پیش کئے گئے بجٹ میں عوام کو ریلیف ملتا تھا ، تو ایک ہی جواب دونوں جانب سے ملے گا کہ پہلے بھی بجٹ اشرافیہ کے لئے تھے اور آئندہ بھی یہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک میںنئے انتخابات،اصلاحات کے مطالبات ، کارکنان کی گرفتاریوںاور مقدمات کا ہنگام مچا ہوا ہے۔ پاکستانی معاشرہ متعصبانہ خطوط پر پولرائز ہو رہا ہے، جس سے آبادی کے مختلف طبقات میں اعتماد اور رواداری ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پاکستان کے اداروں پارلیمنٹ، عدلیہ اور سول سوسائٹی بھی کمزور ہوئے، جو سیاسی مداخلت اور دباؤ سے منقسمہوچکے ہیں۔ملک کا آدھے سے زیادہ بجٹ صرف سود کی ادائیگی کی مد میں جائے گا ۔ اعداد و شمار تو موجود ہیں لیکن خالی خزانے میں رقم کہاں سے آئے گی اور اس کی منصوبہ بندی کیا ہے۔اس سے لاعلم اتحادی حکومت بھی گومگو کیفیت کا شکار ہیں ۔ اس کا اندازہ اتحادی حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی اور انہیں منانے کے لئے وزیراعظم کی مداخلت کئے جانے سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت تو ایک طرف خود اتحادیوں کو اپنے شراکت داروں کی فیصلہ سازی پر اعتماد نہیں رہا ۔ پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ ملک پہلے ہی COVID-19 وبائی بیماری کی وجہ سے شدید معاشی بدحالی کا سامنا کر رہا تھا، جس کی وجہ سے ترقی میں تیزی سے سکڑاؤ، مہنگائی میں اضافے، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ، اور تجارت اور سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی تھی۔ سابق حکومت کی برطرفی کے بعد سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا ۔پاکستان کے معاشی بحران نے اس کی بیرونی پوزیشن کو بھی متاثر کیا ہے، کیونکہ اس نے اپنی برآمدات کو کم کر دیا ، اپنی درآمدات میں اضافہ کیا ۔ اس وقت ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں جیسا کہ عرب ممالک ، چین، امریکہ اور یورپی یونین میں جگہ بنانے کے لئے معاشی پہیہ چلانے کی ضرورت ہے لیکن حسب روایت تمام تر توجہ ٹیکسوں پر مزید ٹیکس بڑھانے اور غریب و مڈل کلاس طبقے پر بوجھ بڑھانے پر ہی مبذول ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران ہے ، خام مال منگوانے کے لئے زر مبادلہ نہیں ، تو ان حالات میں برآمدات میں اضافہ کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بربادہورہا ہے، گندم کی ریکارڈ پیداوار ہونے کے باوجود آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔اشیا ء ضروریہ کے لئے نام نہاد سبسڈی دینے سے ذخیرہ اندوزوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے، اس کے فوائد عام عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتے ۔ وفاق اور صوبے کم ازکم اجرت (32ہزار)کا اعلان تو کردیتے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو انہیں کارخانوں ، دوکانوں وغیرہ میں اس کا نصف نہیں ملتا ۔مزدور کو اس کی مزدروری بھی پوری نہیں ملتی تو وہ کس طرح جائز طریقوں سے اپنے خاندان کی لازمی ضروریات پوری کر پائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجنے کے بجائے کاموں پر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کا تو ماننا ہے کہ اسکول جانے سے انہیں کیا فائدہ ملے گا ، سرکاری نوکریاں تو رشوت ، اقربا پروری اور سیاسی وابستگیوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں ، مہنگی تعلیم کا وہ تصور نہیں کرسکتے ۔ تو بھلا وہ کیوں اپنے خاندان کو بھوکا ماریں۔ چائلڈ لیبر بچوں کا ایسا روزگار بن چکا ہے، جو انھیں ذہنی، جسمانی، اخلاقی اور سماجی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ بچوں سے تعلیم چھین لیتی ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 12.5 ملین بچے مزدور ہیں۔ یہ بچے مختلف شعبوں جیسے زراعت، مینوفیکچرنگ، خدمات، اور گھریلو کام، اکثر خطرناک اور استحصالی حالات میں میں کام کرتے ہیں جہاں وہ تعلیم، صحت اور بدسلوکی اور تشدد سے تحفظ کے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جب قوم کے مستقبل کے معمار اس حال میں ہوں تو اس طرح کے بجٹ کا اچار ڈالیں ۔