چولستان کو نخلستان میں بدلنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارنے کیلئے کسی انقلابی قدم کا منتظر ہے۔ مگر کوئی بھی انقلابی قدم جدید سائنسی علوم و تحقیق کے بِنا اَدھورا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک بشمول آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، دبئی، چین، اْردن، آذربائجان، سوڈان، ایران اور امریکہ نے جدید سائنسی تحقیق کو برائے کار لاتے ہوئے اپنے ناقابل ِ کاشت علاقوں اور صحراؤں کو سرسبز بنایاہے۔ڈاکٹر محمد علی رضا چین کی گینسو اکیڈمی آف ایگریکلچر ل سائنسز میں بطور ایسوسی ایٹ ریسرچر کے طور پر کام کررہے ہیں۔پچھلے دِنوں انہوں نے راقم الحروف کی توجہ ملک میں خوراک کی کمی اور مصنوعی بارش کے پروجیکٹ کی طرف مبذول کرائی۔اِس وقت ملک مسلسل بڑھتی آبادی اور کم ہوتے ہوئے زرعی رقبے جیسے مسائل کا شکار ہے۔ پچیس کروڑ آبادی کو خوراک کی فراہمی سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اِس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کیلئے ان مسائل کے حل کی جانب پیشرفت کے لیے ہمیں یقینی طورپراپنی مجموعی پیداوارکوبڑھانے کی ضرورت ہے جو دو طریقوں سے ہی ممکن ہے۔پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم بائیوٹیکنالوجی و دیگر جدیدزرعی علوم کا استعمال کرتے ہوئے فصلوں کی ایسی اقسام تیار کریں جو ہمارے موجودہ زرعی رقبے کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کا باعث بنیں۔تاہم ہمارے موجو دہ محدود وسائل کے پیش نظر یہ ایک طویل مدتی، صبر آزما اور کٹھن عمل ہے۔واحد حل زرعی رقبے میں اضافہ کرنا ہے تاکہ غذائی قلت کے اندیشے کو کامیابی سے دور کیا جا سکے۔زرعی رقبے میں اضافہ کے لیے پاکستان کو بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے ناقابل کاشت علاقوں جیسا کہ پہاڑ اور صحرا کو قابل کاشت بنانا ہو گا۔ پہاڑی علاقوں کی جغرافیائی ہیت وہاں پرمحدودپیمانے کی کاشت کی اجازت دیتی ہے جو کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔تاہم صحراایک ایسی جگہ ہے کہ جس کو قابل کاشت بناکرملکی زرعی رقبے میں خاطر خواہ اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود تین صحراؤں (چولستان،تھل اور تھر) میں سے کس صحراکی زمین کو فصلوں کی کاشت کیلئے قابل استعمال بنا یاجاسکتا ہے؟سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کہتے ہیں کہ پروفیسر رفیق مغل کی تحقیق کے مطابق چولستان آج سے پانچ ہزار سال قبل دریائے ہاکڑہ کی بدولت سرسبز و شاداب ہوا کرتی تھی۔ مگر زیرزمین موجود ٹیکونک پلیٹس کی حرکت کی وجہ سے صحرابن گئی۔تاہم چولستان کی بظاہر بنجر زمین کو دوبارہ قابل ِ کاشت بنایاجاسکتا ہے۔چولستان کو قابل کاشت بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ پانی کی قلت و عدم دستیابی ہے جس کو دور کرنے کے ذرائع ہیں۔ پہلا یہ کہ ملک میں موجود آبی وسائل کی تقسیم کرکے نہروں کے زریعے چولستان میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔مگر محدود آ بی وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی مزید تقسیم غیر موزوں ہے۔ ایسے میں مصنوعی بارش وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت چولستان کو نخلستان میں بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیرکیا جاسکتا ہے۔اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنوعی بارش کیونکر ممکن ہوسکتی ہے؟پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے دیگر پروجیکٹس کے علاوہ جس آخری منصوبے کا افتتاح کیا، وہ چولستان میں مصنوعی بارش برسانے کا منصوبہ تھا۔ اْن کے مطابق دنیا میں مصنوعی بارش کے دو طریقے ہیں۔ کلاؤڈ سیڈنگ (جو کہ ایک روائتی طریقہ ہے) اور کلاؤڈ فارمیشن (جو کہ جدید طریقہ ہے)۔ کلاؤڈ سیڈنگ سے بارش برسانے کے لیے بادلوں کی موجودگی میں جہاز کے ذریعے مختلف نمکیات (سلور آیوڈائڈ) کا بادلوں پر چھڑکاؤ کیا جاتاہے جو کہ ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔یہ ایک مہنگا طریقہ بھی ہے۔ جس میں محدود پیمانے پرایک مرتبہ بارش برسانے پر تقریبا ڈیڑھ ارب روپے لاگت آتی ہے۔جبکہ کلاؤڈ فارمیشن ماحول دوست اور فزکس کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس طریقہ کار میں زمین پر لگائے گئے موسمی جنریٹرز کے ذریعے ایک بڑی تعداد میں ایسے منفی چارج والے برق پارے (آئنز) ہوا میں پھیلائے جاتے ہیں جو کہ ہوا میں موجود پانی کے بخارات کو اپنے گرد جمع کرتے ہوئے بادلوں کی شکل اختیار کرکے بارش کا باعث بنتے ہیں۔ اس طریقہ سے پاکستان کے موجودہ بارشوں کے نظام پر بھی کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے کیونکہ بارش برسانے والی یخ بستہ ہوائیں تمام ملک میں بارش برسانے کے بعد چولستان کے راستے ملک سے اخراج کرتی ہیں۔ ملک سے اخراج کرتے وقت ان ہواؤں میں تیس سے پچاس فیصد تک نمی موجود ہوتی ہے جس کو کلاؤڈ فارمیشن یا آیونایئزیشن تکنیک کی مدد سے بارش میں تبدیل کرکے چولستان کی آبیاری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اگر آیونایئزیشن تکنیک کے ذریعے چولستان میں بارشیں برسائی جاتی ہیں تو پانی کی دستیابی کی وجہ سے ملکی زرعی رقبے میں تقریبا پچاس سے ساٹھ لاکھ ایکڑ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔قابل کاشت رقبے میں اس بڑے اضافے کی بدولت پاکستان کی پھلوں،سبزیوں، تیل دار اجناس اور گندم کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے اور اضافی پیداوار کو برآمد کرکے ایک کثیر زرمبادلہ بھی کمایاجاسکتا ہے۔ مثال کے طور پرسردیوں میں اگر کم آبپاشی والی فصلوں (گندم اور رایا) کوچولستان میں تیس لاکھ ایکڑ پر کاشت کیا جائے اور ملکی اوسط پیداوار(گندم:29-30 من، رایا: 7-10 من فی ایکڑ) سے کم پیداوار (گندم: 20-22 من، رایا 4-5 من فی ایکڑ) بھی لی جائے تووطن عزیزکا ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر جو کہ ان اجناس کی درآمدات میں خر چ ہوتا ہے، وہ بچایا جاسکتاہے۔