پاکستان ایشیا کپ سے باہر ہو گیا ہے ، یعنی ایک اور شکست ! اگرچہ سری لنکا سے ایک اچھے مقابلے کے بعد باہر ہونے پہ قوم اتنی دکھی نہیں جتنی بھارت سے ہارنے پہ دکھی ہے۔ ورلڈ نمبر ون ٹیم کو نجانے کس کی نظر لگ جاتی ہے خاص طور پر جب میچ بھارت سے ہو۔ پاکستانی قوم کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ بیچاری عوام کے پاس خوش ہونے کیلئے سوائے کرکٹ میچ کے کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ ایسے دگر گوں حالات میں صرف کھیل کا میدان ہی ہے جہاں چند لمحوں کیلیے اپنے غم بھول کر ذرا سی تفریح اور خوشی حاصل کی جا سکتی ہے مگر یہ خوشی بھی ہماری ہار کیساتھ مٹی میں مل گئی۔ پاکستانی عوام کو کسی اور سے ہارنے کا اتنا غم نہیں جتنا بھارت سے ہارنے پر مایوسی ہوئی مگر بدقسمتی سے تعلیم، سائنس ، تحقیق اور معیشت کیساتھ ساتھ بھارت نے ہمیں کھیل کے میدان میں بھی شکست دے دی۔ یہاں میرا موضوع صرف کھیل نہیں ، اگر ہم پچھلے چھہتر سالوں کا موازنہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں وقت تو ایک سا ملا ، ایک ہی ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں اتنا فرق کیسے ؟؟ آزادی کے چھہتر سال ہم نے بھی گزارے اور بھارت نے بھی۔ ہمارے اور انکے مسائل میں کوئی خاص فرق بھی نہیں۔ غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری اور آبادی جیسے مسائل کا سامنا ہم دونوں کو ہے لیکن آخر کار ایسی کیا وجہ ہے کہ آج وہ چاند پہ قدم رکھ چکے اور ہم ۔۔۔۔بس اسی موازنے اور مقابلے میں ہم نے وقت برباد کر دیا اور انہوں نے چاند پہ اپنا پرچم لہرا کر ہمیں ایک ہی لات رسید کی اور منہ کے بل گرا دیا۔ کم و بیش ایک ہی جیسے مسائل اور وسائل رکھنے والے ممالک میں فرق ہے تو محض ترجیحات کا۔ بات صرف چاند تک محدود نہیں ہمارے ازلی دشمن نے تو سورج پہ بھی نظریں جما لیں ہیں اور بلاشبہ دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بھارت ہم سے کہیں آگے ہے۔ آئی ٹی ، اے آئی ، سائنس اور جدید تحقیق میں بھارت کی ترجیحات ہم سے مختلف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہم سے کہیں آگے ہیں۔ ہمارے کرتا دھرتا تو بس اقتدار کی جنگ میں غرق ہوئے رہتے ہیں کسی کو ملک کی فکر ہے نا عوام کی، پاکستان کا مستقبل کتنا تاریک کر چکے ہیں یہ سوچنے کیلیے کسی سیاستدان و حکمران کے پاس وقت نہیں کیونکہ انکا سارا وقت ایک دوجے کو گرانے اور پچھاڑنے میں گزر جاتا ہے۔ کونسی سازش کس کے خلاف کرنی ہے کسے گرانا ہے اور کسے اٹھانا ہے؟ کون سی سیاسی جماعت حکومت سنبھالے گی اور کون اپوزیشن میں رہ کر ایک دوجے کا گریبان چاک کرئے گا ؟ ہماری کہانی یہیں سے شروع اور یہیں پہ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ سیاسی رہنما غریب عوام کیلئے لڑتے لڑتے ارب پتی بن گئے اور غریب عوام انکے نعرے لگاتی لگاتی غریب سے غریب تر ہو گئی۔ اس قوم کا المیہ یہی ہے کہ آج تک اپنے اندر اتنا سیاسی شعور بیدار نہیں کر سکی کہ کسی نعرے نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا،کوئی ترقی اور خوشحالی نہیں دی، کسی نے ہماری صحت ،تعلیم اور ترقی پر دھیان نہیں دیا۔ شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگانے والے اسی شیر کا نوالہ بن گئے اور تیر کو ہدف پہ لگانے کے دعویدار اسی تیر سے عوام کو چھلنی اور لہو لہان کر گئے۔ کرکٹ کی دیوانی قوم بلے کو لہراتے لہراتے ایسی چکرائی کہ اب تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ کونسی تبدیلی تھی ؟ یہ کونسا سونامی تھا ؟ اور ہمیں یہ کیسا نیا پاکستان بنا کے دیا ہمارے سیاستدانوں نے کہ جس میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں۔ وہ پاکستان جسے آگے لے جانے کی کوشش میں ہم مزید پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اگست کے مہینے میں آزادی کا جشن دونوں ممالک مناتے ہیں لیکن ہماری اور انکی آزادی میں فرق اب واضح اور نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری عوام جھنڈے لگا کر، بینڈ باجے بجا کر اور سڑکوں پہ ہلڑبازی مچا کر خود کو آزاد قوم ہونے کا دھوکہ دیتی ہے جبکہ بھارت نے اس بار اگست کے مہینے میں چاند پہ اپنا پرچم لہرا کر اپنے آزاد ہونے کا جشن منایا ہے۔ بھارت میں سیاسی انارکی اور کرپشن کا بازار اس طرح سے گرم نہیں جیسے کہ ہمارے ہاں ہے نیز وہاں کی حکومت کے ظلم و ستم کا رخ مسلمان اقلیتوں کی جانب ہے ناکہ اپنی ہندو عوام پر، مودی کو چائے والے کا طعنہ دینے والے حکمران اور ابھینندن کو بار بار "فنٹاسٹک ٹی" یاد کروانے والے اب منہ میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں اس چائے والے نے اپنے نوجوانوں کیلیے تعلیم و تحقیق کے دروازے کھول دیے اور انہیں چاند پر پہنچا کے دم لیا۔ کہتے ہیں کہ بیوقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے لیکن ہمیں تو دوست بھی عقل مند ملے جو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ہم شوق سے بخوشی استعمال ہوتے رہتے ہیں اور دشمن تو پھر دشمن ٹھہرا اور دشمن سے کبھی ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ بھارت کا تعلیمی بجٹ اور ہمارا تعلیمی بجٹ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جدید تعلیم و تحقیق ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں محض بیروزگاروں کی فیکٹریاں ہیں جہاں تھوک کے حساب سے بیروزگار افراد تیار کیے جاتے ہیں جو ہاتھوں میں ڈگریاں لیے ہنر اور فن سے نابلد ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینیرز صرف ایک نوکری کے حصول کے لیے سولہ سال تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اتنا فرسودہ اور بیکار ہے کہ نوجوانوں سے انکی تمام تحقیقی صلاحیتیں کھرچ کھرچ کر ختم کر دیتا ہے۔ اپنے دماغ سے سوچنا اور کچھ نیا کر دکھانے کا عزم ناپید ہے اور محض ایک نوکری کا حصول زندگی کا مقصد حیات بن کے رہ گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ آج باقی دنیا تو دور ہم اپنے ہمسائے اور اپنے جیسے مسائل رکھنے والے ممالک سے شکست پہ شکست کھا رہے ہیں اور ابھی نجانے کتنی مات کھانی باقی رہ گئی ہے۔ میری تمام سیاستدانوں سے التماس ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں۔ آپ سب بھلے آپس میں لڑتے رہیں اور کرسی کرسی کا کھیل جاری رکھیں لیکن پاکستان پر صرف ایک احسان کر دیں۔ پاکستانی نوجوانوں کے لئے تعلیم و تحقیق کے نئے دروازے کھولیں، تعلیمی بجٹ کو بڑھائیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر بھلے پیسہ خرچ نا کریں لیکن خدارا جدید تعلیم اور سائنسی تحقیق و ترقی کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں کیونکہ صرف تعلیم ہی کسی قوم کی ترقی کی ضامن ہے۔ آج دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف تعلیم و تحقیق اور سائنسی ترقی ہی بہترین ہتھیار ہے جس سے ہم اپنے تمام اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں ورنہ ہم ایسے ہی شکست پہ شکست کھاتے رہیں گے۔