یہ دنیا عبرت کی جگہ ہے بڑے بڑے نامی گرامی لوگ آئے اور چلے گئے۔ زمین پر بڑے تکبر اور جاہ جلال کے ساتھ رہنے والے اِس عبرت سرائے میںنسان عبرت بن گئے ۔سلطان غیاث الدین تغلق ، حضرت نظام الدین اولیاء کو تکلیف دینے کے ارادے سے دلی آ رہا تھا اور کسی نے یہ بات حضرت نظام الدین اولیاء کو عرض کی تو آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ہنوز دلی دو راست ‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا تغلق دلی سے ابھی دس کوس اپنے لیے بنائے گئے محل کا معائنہ کر رہا تھا کہ محل کی چھت گرنے سے مر گیا ۔ کالا باغ کی اصل وجہ شہرت نواب امیر محمد خان مرحوم آف کالا باغ ہیں۔ میانوالی سے ساٹھ کلومیٹر دور دریائے سندھ کے کنارے پر آباد کالا باغ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ نواب امیر محمد خان اعوان کے آباو اجداد نے اِس کو آباد کیا یہاںدوسری اقوام میں پراچہ ، کلو اور خٹک وغیرہ آباد ہیں لیکن کالا باغ کے سیاہ اور سفید کا مالک نواب امیر محمد خان اعوان تھا ۔ اُس کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا تھا ۔ مجھے کالا باغ دیکھنے کا بڑا شوق تھا کیونکہ میرے ایک نہات ہی پیارے دوست اور کلاس فیلو محترم فضل الرحمن پراچہ کے آباو اجداد بھی اِ س سر زمین کے باشندے ہیں۔ جنہوں نے مولانا نور محمد پراچہ کی قیادت میں نواب کالا باغ کے جبراور ستم کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کیا تھا جس پر نواب امیر محمد خان نے مولانا نور محمد پراچہ کو کالا باغ سے جلا وطن کرادیا تھا۔ مولانا نور محمد کے من میں حق گوئی کی شمع امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مجلس احرار کے ایک اور عظیم خطیب مولانا گل شیر نے روشن کی تھی۔ مولانا نور محمد آزاد پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا اور مولانا گل شیر کو قتل کرا دیا گیا۔ مولانا نور محمد اپنے خاندان سمیت ہجرت کر کے ڈیرہ غازی خان آگئے اور اپنی وفات تک یہی پر مقیم رہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز پراچہ ، فضل الرحمن پراچہ ، مولانا نور محمد کے نواسے ہیں اُنہی کے بھائی عبدالقیوم پراچہ کے صاحبزادوں ڈاکٹر ذیشان پراچہ اور محسن پراچہ کی شادیوں پر گزشتہ سال کالا باغ اپنے ایک اور پیارے دوست طاہر نواز خان اعوان کے ساتھ بارات کے ساتھ جانا ہوا۔ ڈیرہ غازی خان سے دس گھنٹوں کے صبر آزما سفر کے بعد رات 10 بجے کالا باغ پہنچے صبح ہوئی تو کالا باغ کے محل و وقوع کا جائزہ لینا شروع کیا اور مرحوم عاشق پراچہ سے کہا کہ نواب کالا باغ کی قبر پر جانا چاہتے ہیں اور اُس کے بعد نواب صاحب کا مشہور عالمی شہرت یافتہ بوہڑ بنگلہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عاشق پراچہ مرحوم نے بتایا کہ نواب صاحب کی قبر پر جانے کی اجازت نہیں جبکہ بوہڑ بنگلہ میںداخلہ کے لیے خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے لیکن باہر سے دریا کے کنارے آپ اِس کو دیکھ سکتے ہیں ہم بوہڑ بنگلہ کا جاہ جلال دیکھنے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے چلے گئے جہاں پر مقامی لوگ کشتیوں کے ذریعے اپنا وسیلہ روز گار قائم رکھے ہوئے ہیں یہیں سے پتہ چلا کہ کالا باغ ڈیم صرف 12 کلومیٹر دور ہے اور آپ کشتی کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی جگہ دیکھ سکتے ہیں لیکن بارات کی روانگی کا وقت نزدیک تھا جس کی وجہ سے ہم کالا باغ ڈیم نہ دیکھ سکے البتہ بوہڑ بنگلہ کو مکمل دیکھا یہ تاریخی بنگلہ تقریباً 14 ایکڑ پر مشتمل دریائے سندھ کے کنارے پر بہت ہی خوب صورت بنایا گیا ہے۔ یہ بنگلہ مکمل سفید ہے اور اِس کے اندر صدیوں پرانا بوہڑ کا تاریخی درخت ہے جس کی وجہ سے یہ کالا باغ کا بوہڑ بنگلہ مشہور ہوا تھا۔ یہ بوہڑ کا درخت نواب امیرمحمدخان کے پردادا نے لگایا تھا جو آج صدیوں بعد بھی اُسی طرح سے ترو تازہ کھڑا ہے۔ اِس تاریخی درخت نے اِس بنگلہ میں ملکہ برطانیہ سے لے کرفیلڈ مارشل صدر ایوب خان تک ہزاروں بڑے لوگوں کو آتے جاتے دیکھا۔ نواب کالا باغ ایک انتہائی اصول پرست اور سخت طبیعت انسان تھے وہ ساری زندگی اپنی روایات کے مطابق چلے کوئی بھی شخص اُن کے سامنے بات نہیں کر سکتا تھا جب وہ گورنر پنجاب ون یونٹ تھے تو پورے ملک میں اُن کا طوطی بولتا تھا وہ ایوب خان کو بھی خاطر میں نہیں لایا کرتے تھے۔ انتہائی دیانت داراور اپنی والدہ کا بے حد احترام کرنے والے تھے اپنے مخالفین کو دبا کر رکھنا اُن کے دائیں ہاتھ کا کام تھا ۔خان نواب امیر خان کے نام سے کانپا کرتے تھے وہ جب تک گونر ہاؤس لاہور میں رہے تو اپنے ذاتی خرچہ سے گورنر ہاؤس چلایا کرتے تھے ۔ 1965ء کی جنگ میں اُنہوں نے تاجروں کو گورنر ہاؤس بلا کر حکم دیا تھا کہ اگر کسی نے بھی کھانے پینے کی چیزوں میں ایک پیسے کا بھی اضافہ کیا تو وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ میں اُسے نہیں چھوڑوں گا اِس دوران اُنہوں نے اپنی بڑی بڑی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے احکامات ہیں اور عوام کو کسی صورت تکلیف نہ دی جائے لیکن پھر نواب صاحب نے گورنری سے مستفی ہونے کا اعلان کر دیا اور کیونکہ صدر ایوب اب اُن پر شک کرنے لگے تھے اور جب دوستی میں شک آجائے تو اُسے ختم کر دینا چاہیے۔نواب امیر محمد خان نے بھی ایسا ہی کیا اور گورنری چھوڑ کر اپنے وفا دار خاندانی ملازم بخشو پراچہ کے ساتھ کالا باغ اپنے بوہڑ بنگلہ میں آگئے ۔ شب روز اِسی بوہڑ بنگلہ میں بسرکرنے لگے لیکن پھر اچانک ایک دن ایسا بھی آیا کہ کچھ خاندانی معاملات کی وجہ سے اُن کی اپنے بیٹوں کے ساتھ اَن بَن ہو گئی اور یوں اپنے ہی گھر کی آگ سے وہ اِس کی لپیٹ میں آئے اور قتل کر دیئے گئے ۔نواب صاحب کے وفا دار ملازم نے بتایا کہ نواب صاحب ہمیشہ لوڈ پسٹل اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اُنہیں اپنے وجدان کے ذریعے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنوں کے ہاتھوں ہی قتل ہونگے اور پھر ایسا ہی ہوا بیٹے نے فائرنگ کر کے اُن کو ڈھیر کر دیا لیکن اُن کے نوکروں کے بقول نواب صاحب نے پہلے فائرنگ کی تھی لیکن اُن کے وار قدرت نے خطا کر دیئے اور نواب صاحب کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ جس روز نواب امیر محمد خان اِس جہان فانی سے کوچ کر نے لگے تو بوہڑ کا تاریخی درخت بھی اُن کی عبرت ناک موت پر ماتم کر رہا تھا ۔