IPSOS MORI برطانیہ میں مشہور سروے تنظیموں میں سے ایک ہے۔ یہ ادارہ سماجی اور عوامی پالیسی کے شعبوں میں تحقیقی مطالعہ کرتا ہے، یہ معیشت ،کھیل، ثقافت، صحت، سائنس، تعلیم، جرائم اور روزگار جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔بین پیج ایک مارکیٹ ریسرچر اور Ipsos کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ 1987 سے سروے کا کام کر رہے ہیں۔ سروے ایک مشکل کام ہوتا ہے ، نمونوں کو بڑی احتیاط سے منتخب کیا جاتا ہے۔سیاسی اور سماجی اختلافات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ IPSOS نے چند روز قبل ایک سروے میں بتایا کہ پاکستان مین مہنگائی، روزگار میں کمی پر لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ IPSOS سروے میں بتایا گیا ہے کہ سروے میں شامل 51 فیصد افراد کو ملک میں بڑھتا ہواافراط زر پریشان کر رہا ہے۔ حالیہ IPSOS سروے میں گزشتہ سروے کے مقابلے میں لوگوں کی بے چینی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔سروے کے دوران ادارے نے چند پوائنٹس کو خاص طور پر نوٹ کیا : سروے بتاتا ہے کہ 10 میں سے صرف 1 پاکستانی کا خیال ہے کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے۔ مرد خواتین کے مقابلے میں دوگنا زیادہ پر امید ہیں۔ 2023 کی سہ ماہی میں نگراں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امیدیں روشن ہوئی ہیں ۔سروے بتاتا ہے کہ پاکستانیوں کے لیے تشویشناک مسائل کی فہرست میں معاشی مسائل بدستور سر فہرست ہیں تاہم، مہنگائی میں معمولی کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔10 میں سے 6 پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک کی معاشی حالت کمزور ہے۔نچلے سماجی طبقات کے لوگ اور بھی زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ 10 میں سے 3 پاکستانی اگلے 6 ماہ میں مقامی معاشی صورتحال میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں، جبکہ 10 میں سے 4 پاکستانی اسی عرصے میں اپنے ذاتی مالی حالات بہتر ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ 10 میں سے صرف 1 پاکستانی مستقبل کی بچت اور سرمایہ کاری پر اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ اس کے باوجود، 98% پاکستانی گھر یا کار جیسی بڑی خریداری کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ سروے کے مطابق10 میں سے 6 پاکستانی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو معاشی حالات کی وجہ سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پانچ سال پہلے، یہ تاثر نصف شرح پر تھا۔ ملازمت کے تحفظ کا یقین پچھلی سہ ماہی سے بدستور برقرار ہے، اکثریت (88%) اب بھی کم اعتماد کا اظہار اور بے یقینی میں گرفتار ہے۔رواں سہ ماہی میں، پاکستان کا سکور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان گلوبل کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس (GCCI) میں بحالی کے معمولی اشارے کے باوجود سب سے کم ہے۔ حالیہ سروے کے نتائج نومبر 2023 کے سروے کے برعکس ہیں، جہاں سروے کرنے والوں میں سے 53 فیصد نے افراط زر کو اپنی بڑی تشویش قرار دیا تھا۔ مئی 2023 میں، افراط زر کو ایک چوٹی کامسئلہ قرار دینے والوں کی شرح 58 فیصد کے قریب تھی۔ مئی 2023 سے، اسے ایک سنگین مسئلہ سمجھنے والوں میں سات فیصد کمی آئی ہے۔ موجودہ سروے کے دوران آئی پی ایس او ایس نے 1,000 لوگوں سے پاکستان کے مسائل پر سوالات کئے۔ اسی طرح بیروزگاری، جس نے گزشتہ رائے شماری کے وقت سروے کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو مایوس کردیا تھا، اب تک چار فیصد پوائنٹس کم ہوکر 16 فیصد رہ گئی ہے۔ سروے میں ان لوگوں میں دو فیصد اضافہ بھی پایا گیا جنہوں نے غربت کی سطح سات فیصد تک پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا۔دیگر مسائل جنہوں نے سروے کے نمونوں پر تشویشپیدا کی ان میں اداروں کی مداخلت میں 5 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ 4 فیصد بجلی کی لوڈشیڈنگ، قیمتوں میں اضافے، بدعنوانی، رشوت ستانی، اقربا پروری اور اشیاء میں ملاوٹ پر پریشان تھے۔ آئی پی ایس او ایس سروے میں قانون کے غلط نفاذ پر بے چینی کا اظہار کیا گیا اور صرف ایک فیصد افراد پانی کی عدم دستیابی کے باعث پریشان پائے گئے۔لوگوں نے حکومت سے ان مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ چودہ فروری کو اسی ادارے نے ایک سروے میں بتایا کہ: پاکستانیوں کی قومی ترجیحات کی فہرست میں معاشی خدشات سرفہرست ہیں۔ تعلیم اور صحت کو سب سے بڑی ترجیحات کے طور پر پہچانا جاتا ہے، عوامی سطح پرسیاست میں فوجی مداخلت کو کم اہم سمجھا جاتا ہے۔ قابل ذکر صنفی اختلافات کے ساتھ صحت اور تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ سروے کا کہنا ہے کہ چوہتر فیصد پاکستانی شہری فوج پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، اس کے بعد سپریم کورٹ (58%)، میڈیا (54%) اور الیکشن کمیشن (42%) قابل اعتماد اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ کم سیاسی شعور کے باوجود، 70% پاکستانی نوجوان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں ووٹ دیں گے۔ ہر چار میں سے تین پاکستانیوں کا خیال ہے کہ انتخابات ملک کو درست سمت میں لے جاتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک پاکستانی نے 2018 سے 2024 تک اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو تبدیل کیا ہے۔ ووٹرز ایمانداری، دیانتداری اور اعلیٰ اخلاقی معیار کے حامل امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ نصف پاکستانی نوجوانوں کا خیال ہے کہ انتخابات ان کی روزمرہ کی زندگیوں پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالتے ۔ پانچ میں سے تین نوجوان محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی رہنما ان کے مسائل یا ترجیحات کو نہیں سمجھتے۔خواتین، دیہی آبادی اور اسلام آباد میں رہنے والے افراد زیادہ شدت کے ساتھ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اور اس نوع کے سروے زیادہ تر ہماری توجہ سے محروم رہتے ہیں کیونکہ ہم کہانیاں سننے کے عادی حقائق کے پیچھے چھپی داستانوں تک جھانکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ پاکستان معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہ سروے بتاتا ہے کہ مختلف طبقات اس پر کیسے رد عمل دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک امید اور حوصلے کی نقرئی لکیر بھی دکھائی دیتی ہے جسے حکومت اور ادارے اپنی کارکردگی سے زیادہ واضح بنا سکتے ہیں۔امکانات موجود ہوں تو کسی کوشش کو مثبت انداز میں ڈھالا جا سکتا ہے۔اچھی بات یہ کہ امکانات نظر آ رہے ہیں ۔نئی حکومت اپنی توانائی اور استعداد کو کیسے بروئے کار لاتی ہے اس سے یہ طے ہو جائے گا کہ ملکی نظام پر عام آدمی کا اعتماد بڑھانے کی سرمایہ کاری باقی شعبوں پر کس طرح خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔