پاکستان کی موجودہ مایوس کن صورتحال میں بہت کم ایسے ادارے ہیں،جو روشنی اور امید کی کرن ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات دیکھیں یا تعلیم و صحت کے نظام کی زبوں حالی پہ نظر دوڑائیں تو بلاشبہ حالات دگر گوں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایم ٹی بی سی MTBC بلاشبہ ایک ایسا ادارہ ہے جو تعلیم و صحت کے میدان میں بہترین اور مثالی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کی کامیابی دیکھ کر اس بات پر یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ ارادے مضبوط اور سوچ مستحکم ہو تو کوئی بھی کام ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ بلاشبہ پاکستان کی پہلی آئی ٹی ہیلتھ کیئر کمپنی ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی نوجوانوں کو ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہے، جہاں صحت اور آئی ٹی سے وابستہ افراد مل کر کام کر رہے ہیں۔ ایم ٹی بی سی امریکہ سے رجسٹرڈ کمپنی ہے جو امریکہ اور پاکستان میں یکساں طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ مختلف ہیلتھ انشورنس کمپنیاں ، پاکستانی و امریکن ڈاکٹرز اور آئی ٹی سے وابستہ افراد اس کمپنی کے ذریعے نا صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کو ہنر مند بنانے کے ساتھ روزگار بھی مہیا کر رہے ہیں۔ مجھے گزشتہ دنوں ایم ٹی بی سی جانے کا موقع ملا۔ جدید تعلیمی نظام اور اس سے جڑے نئے رجحانات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کو ملی۔ اس ادارے کی جانب سے ایک روزہ سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں جدید تعلیمی نظام میں جدت پسندی اور آنے والے وقت میں آئی ٹی اور اے آئی کے ذریعے نئے رجحانات پر بات کی گئی۔ علمی اعتبار سے ایک بھرپور محفل تھی جس سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ اگرچہ میں خود تعلیمی نظام کا حصہ ہوں لیکن بلاشبہ پاکستان میں اس سے پہلے میں نے اتنا بہترین، منظم ، جدید اور خوبصورت ادارہ نہیں دیکھا جو تمام جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور آزاد کشمیر کے خوبصورت پہاڑی سلسلوں میں شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں انتہائی خوبصورت اور جدید عمارت جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہی تھی۔ پاکستان میں یہ ایم ٹی بی سی کا ہیڈ کوارٹر/ آپریشن آفس ہے جہاں سے باقی تمام دفاتر سے مل کر کام کیا جاتا ہے۔ اس کمپنی کے دفاتر ملک بھر میں موجود ہیں جیسا کہ اسلام آباد ، لاہور، باغ وغیرہ جبکہ بیرون ملک نیوجرسی میں انکا ہیڈ کوارٹر ہے اور سری لنکا میں بھی یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں انقلابی خدمات سر انجام دینے والا یہ ادارہ بیک وقت ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ صرف باغ میں چار سے پانچ ہزار افراد اس ادارے سے وابستہ ہے جن میں ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی خواتین کی ہے۔ یہ ادارہ میڈیکل بلنگ کیساتھ مختلف سافٹ ویئر بھی بناتا ہے جو دنیا بھر میں ڈاکٹرز اور انکے مریضوں اور مختلف انشورنس کمپنیوں کے مابین بہترین رابطے کا ذریعہ ہیں اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتا ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں چالیس ہزار سے زائد ہسپتالوں ، انشورنس کمپنیوں ، ڈاکٹرز ، اور آئی ٹی افراد سے جڑا ہوا ہے۔ نیز پاکستان میں یہ ادارہ تعلیم اور ٹورازم میں بھی اپنی بے مثال خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے سے وابستہ ایک سکول بھی ہے جوباغ میں بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ اس ادارے کے بانی محمود الحق صاحب کا خواب ہے کہ پاکستان تعلیم اور صحت کے میدان میں آگے سے اگے بڑھے اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک جدید اور ترقی یافتہ پاکستان دے سکیں۔ پاکستان میں ایسے خودمختار ادارے بنائیں جائیں جو نوجوان نسل کو جدید اور اعلیٰ تعلیم کے ساتھ وطن عزیز کی معاشی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین کی تعلیم و تربیت میں بھی یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں پڑھی لکھی خواتین کو کمپیوٹر اور آئی ٹی میں ہنر مند بنایا جاتا ہے تاکہ اس ادارے سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ اس قابل ہو جائیں کہ کسی پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے پیروں پہ کھڑی ہو سکیں اور کسی بھی آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ رہ کر کام کر سکیں۔ پاکستان میں حقیقتاً ایسے اداروں کی شدید قلت ہے جو اپنے زور بازو سے ایک بہترین مثال قائم کریں۔ ہماری پڑھی لکھی اکثریت حالات سے مایوس ہو کر وطن چھوڑ دیتی ہے اور امریکہ، یورپ اور یو۔کے میں جا کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد نے دیار غیر کا رخ کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جانا، رہنا اور اعلی تعلیم حاصل کرنا قابل تحسین اقدام ہے لیکن اس کے بعد اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ ایم ٹی بی سی بنانے والوں نے یہ کر دکھایا ہے کہ اپنے وطن میں رہتے ہوئے انتہائی پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کیساتھ مل کر ہم ویسے ہی محنت و جانفشانی سے کام کر سکتے ہیں جیسا کہ یورپ و امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ضرورت صرف سچی لگن اور محنت کی ہے۔ غالباً 1995 میں اس ادارے نے اپنی بنیاد رکھی اور کام کا آغاز کیا ، بیشمار رکاوٹوں اور چیلنجز کو عبور کرتے ہوئے آج دو دہائیوں سے زیادہ کے عرصے میں یہ ادارہ دنیا کی چند بہترین آئی ٹی کمپنیوں میں شامل ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ یہ ادارہ اور اس سے منسلک افراد ترقی کی تمام منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرتے رہیں۔ نیز میں محمود الحق اور صبور علی سید کا بے انتہا شکر گزار ہوں جنہوں نے سیمینار میں شرکت کی دعوت دی اور اسکی علمی و عملی کاوشوں کو جاننے کا موقع دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صرف تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ محنت کرکے ہم دنیا میں وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جسکا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا۔ ہم پاکستان کو کبھی ترقی یافتہ ملک نہیں بنا سکتے جب تک تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہوگی۔