کراچی ( سٹاف رپورٹر)وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ پاکستان الیکٹرانک ایکٹ (پیکا)ترمیمی آرڈیننس اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے آرڈیننس جاری کر دیئے گئے ،میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو بالکل کرے لیکن جعلی خبر نہیں ہونی چاہئے ، پیکا آرڈیننسکے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہوگی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔اتوار کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لئے قانون بڑا ضروری ہے ، اس لئے اب فیک نیوز پھیلانے والوں کو 3 سال کی جگہ 5 سال قید کی سزا ہوگی، یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہوگا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہوگی۔انہوں نے کہا پیکا قانون سب کے لئے ہوگا،معروف شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا اس آرڈیننس کے تحت 6 مہینے کے اندر اس کیس کا ٹرائل مکمل کرنا ہوگا، اگر 6 مہینے کے اندر ٹرائل مکمل نہ ہوا تو ہائی کورٹ متعلقہ جج سے تاخیر سے متعلق سوال کرے گی، اگر جج تسلی بخش جواب نہ دے سکا تو جج کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ممکن ہوگی۔فروغ نسیم نے کہا اس آرڈیننس کی مدد سے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف ہتک عزت کا کیس کیا جاسکے گا اور کرمنل جرم کے تحت کارروائی بھی کی جاسکے گی جسے 6 مہینوں میں نمٹانا لازمی ہوگا۔انہوں نے کہا 6 مہینے کی مدت اسی لئے رکھی ہے تاکہ عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد رہے ، غیر ضروری وجوہات کی بنیاد پر تاخیر کی گئی تو متعلقہ جج پر لازم ہوگا کہ چیف جسٹس کو خط لکھ کر وجوہات سے آگاہ کریں۔وزیر قانون نے کہا پیکا والے قانون کی ڈرافٹنگ میں نے کی جبکہ الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کا ایکٹ بابر اعوان نے بنایا ہے جس کے تحت کوئی بھی الیکشن مہم چلا سکتا ہے ، یہ قانون سب کیلئے مساوی اور تمام افراد کیلئے اس پر یکساں طور پر عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوں نے کہا اس قانون سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ہرگز مقصد نہیں ، آپ تنقید کے لئے بالکل آزاد ہیں لیکن اعتراض صرف یہ ہے کہ فیک نیوز نہیں ہونی چاہئے ۔وزیر قانون نے کہا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سال سے 5 سال تک ہے ،اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ۔وزیر قانون نے کہا ہمارے پڑوسی جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں، ڈس انفارمیشن لیب کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے پیچھے بھارت تھا۔انہوں نے کہا حقیقی پاکستانی صحافی جھوٹی خبریں نہیں دیتا، یہ جھوٹی خبریں دینے والے محض وہ لوگ ہیں جن کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا پھر ایسی خبروں کے ذریعے ہیجان پھیلانے کے پیچھے انڈیا ہوتا ہے ، اس سب کو روکنا انتہائی ضروری ہے ۔انہوں نے کہا یہ آرڈیننس بڑا ضروری تھا، وزیراعظم نے مجھ ، فواد چودھری، اٹارنی جنرل اور شیخ رشید سے اس پر مشاورت کی جس کے بعد پیکا کی یہ ترامیم تیار کی ہیں۔پیکا آرڈیننس کے تحت وزیراعظم کے خلاف بھی اپیل کا حق موجود ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت کسی کو بھی کارروائی سے استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، یہ سب پر لاگو ہوگا، تنقید کا آئینی حق سب کو حاصل ہے لیکن جھوٹی خبریں نہیں ہونی چاہئیں۔آرڈیننس کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا آئین میں شامل کوئی ایک شک ایسی دکھا دیں جو یہ کہتی ہو کہ فیک نیوز پھیلانا آپ کا آئینی حق ہے ۔انہوں نے کہا چیف جسٹس گلزار احمد کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی گئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، اسی طرح خاتونِ اول اور عمران خان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئیں کہ انہوں نے گھر چھوڑ دیا ، فرض کریں خدانخواستہ کسی صحافی کی طلاق سے متعلق ایسی من گھڑت خبریں چلا دی جائیں تو کیا ردعمل آئے گا؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اس قانون سے متعلق تحفظات پر سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ایچ آر سی پی نے اگر درست طرح اس مجوزہ قانون کو پڑھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظرثانی کریں گے ۔انہوں نے مزید کہا اگر نیب یا کوئی اور محکمہ کسی کے خلاف کوئی الزام لگاتا ہے اور وہ غلط ثابت ہوتا ہے تو بھی متاثرہ شخص عدالت میں جا سکتا ہے ۔کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سٹریٹ کرائم میں کمی کے لئے بلدیاتی نظام کا فعال ہونا ضروری ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا اپوزیشن عوام کوورغلارہی ہے ،حکومت کے چل چلائوکاوقت نہیں،کسی کے پاس اکثریت ہے توضرورآجائے ،وزارت کوپہلانمبرنہ ملنے پرکوئی افسوس نہیں۔ اسلام آباد( خبر نگار خصوصی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی اور الیکشن ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ۔صدر مملکت کی جانب سے جاری پیکا آرڈیننس میں شخص کی تعریف شامل کر دی گئی جس کے مطابق شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی۔آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔التوا کی صورت میں عدالت متعلقہ ہائیکورٹ کو ماہانہ بنیادوں پر وجوہات سے آگاہ کرے گی، قابل قبول وجوہات کی صورت میں ہائیکورٹ عدالت کو فیصلے کے لئے نئی ٹائم لائن دیگی اور اگر ہائیکورٹ سمجھتی ہے کہ ٹرائل میں حائل رکاوٹوں کو وفاقی یا صوبائی حکومتیں یا اسکے افسران دور کرسکتے ہیں تو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔اگر وفاقی یا صوبائی سیکرٹری قانون و انصاف سمجھتے ہیں کہ تاخیر کی وجہ پریذائیڈنگ افسر یا عملہ ہے تو وہ اس حوالے سے ہائیکورٹ کو آگاہ اور مناسب کارروائی تجویز کرینگے ۔اگر ہائیکورٹ سمجھتی ہے کہ تاخیر کی وجہ جج یا عملہ ہے تو وہ ضابطہ کی کارروائی کا حکم دے گی۔ ہر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لئے نامزد کرے گا۔الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق تمام اسمبلیوں، سینٹ اور مقامی حکومتوں کے ممبران الیکشن مہم کے دوران تقاریر کر سکیں گے ، کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمائندے حلقے کا دورہ کر سکیں گے ۔