اتوار کو ایک بار پھر الیکشن کمیشن سارا دن خبروں میں رہا۔ قیاس آرائیاںکی جاری تھیں کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے دبائو میں آکر استعفیٰ دیا ہے، مگر بعد ازاں خبریں آئیں کہ وہ بیمار ہیں، لیکن قیاس آرائیاں ابھی بھی جاری ہیں، کیوں کہ الیکشن کو صرف ایک ماہ رہ گیا ہے۔اس طرح کی خبر آنا واقعی تشویشاک ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کی دو سالہ مدت ِملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہوگئی تھی تاہم چیف الیکشن کمشنر نے ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔اطلاعات کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ان کی صحت انہیں مزید کام کی اجازت نہیں دیتی۔ بات جو بھی ہو مگر یہ چہ مگوئیوں کا باعث بنی ہے اور پھر جہاں تک پانچ جنوری کو سینیٹ میں انتخابات التوا کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد کی بات ہے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ جس انداز میں پیش کی گئی تھی، اُس کی عالمی میڈیا میں بھی گونج سنائی دی ہے۔ یہ نیک شگون تو نہیں ہے مگر اللہ کرے ایسا کچھ نہ ہو جیسے اندیشے ظاہر کئے جار ہے ہیں۔ اور پھر دبائو تو ویسے بھی الیکشن کمیشن پر اس وقت بہت زیادہ ہے کہ کسی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی ۔ کیوں کہ کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن پر خاصا دبائو ہے۔ کبھی ایک جماعت کے عہدیداران کو نکال باہر کیا جارہا ہے، تو کبھی اُسی جماعت کے اراکین کی پکڑ دھکڑ پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ،، اور تو اور کبھی اُس کے انٹرا الیکشن کو ہی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ انتخابی نشان ہی واپس لے لیا جاتا ہے۔ جسے بعد ازاں عدالت عالیہ کے حکم پر واپس کیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر بلے کا نشان واپس لے لیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے الیکشن کمیشن دیکھے، ڈکٹیٹر شپ کے دوران بھی الیکشن دیکھے مگر جتنا متنازع موجودہ الیکشن کمیشن ہے، شاید ہی کوئی ہو۔ اور پھر جب ایسے حالات میں الیکشن ہوں تو کیا اگلے پانچ سال کیلئے بننے والا سسٹم چل سکتا ہے؟ کیا اس طرح ملک ترقی کر سکتا ہے؟ اور پھر کیا اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کوئی جماعت ختم ہوسکتی ہے؟ چلیں آپ پاکستان کی مثال نہ لیں۔ آپ اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔ جہاں 2009سے بنگلہ دیش عوامی لیگ (BAL) برسر اقتدار ہے۔ شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں۔ جبکہ وہاں کی مقبول جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپوزیشن میں ہے، اس جماعت کی چیئرپرسن خالدہ ضیا ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق بی این پی کی مقبولیت کا گراف42 فیصد، جبکہ عوامی لیگ کا گراف 24 فیصد ہے۔ عوامی لیگ نے ان 14سالوں میں ہر حربہ استعمال کیا کہ بی این پی کی مقبولیت کم ہو جائے مگر وہ ہر گزرتے دن بڑھتی گئی اور اب جبکہ آج ہی کی خبر ہے کہ حسینہ واجد الیکشن جیت چکی ہیں، ان کی جماعت نے ہر حربہ استعمال کیا ہے کہ بی این پی اقتدار سے باہر رہے۔۔ لیکن کب تک ایسا ہوگا؟ کیا کبھی انقلاب کو طاقت سے ختم کیا جا سکا ہے؟ یا کسی جماعت کو ڈرا کر دھمکاکر ختم کیا جا سکا ہے۔ جو یہ مخصوص جماعت ختم ہوگی۔ پاکستان میں بھی ایک ٹولہ ہے جسے پاکستان پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے جوچاہتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے ، اس دوران اس جماعت کی قیادت پر سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے ہیں، مگر مقبولیت ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اور اب جبکہ ہر ٹوٹکا آزمایہ جا چکا ہے تو الیکشن کمیشن کے ذریعے اسے دبایا جا رہا ہے۔ کیا کسی کو 2013ء کے الیکشن یا د نہیں جب مذکورہ جماعت نے دھاندلی کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ مہم اگلے پانچ سال تک جاری رہی۔ کیا کسی کو علم ہے کہ اس دوران ملک نے کتنا Sufferکیا تھا؟ ایک اندازے کے مطابق ملک کو 60ارب ڈالر کا نقصان اور کئی انویسٹرز نے ملک سے منہ موڑ لیا تھا؟ تو کیا الیکشن کمیشن اسی قسم کے انتخابات کروا کر اگلے پانچ سال اسی قسم کی پر تشدد سیاست چاہتا ہے؟میرے خیال میں اگر فیصلہ کرنے والوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے جائیں تو ایک خاص جماعت آگے آسکتی ہے،،، یا دوسری طرف آپ یہ کہہ لیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یقین نہیں ہے کہ عوام انہیں ووٹ دیں گے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کروایا جائے تو کیا یہ کوئی اچھی اور جمہوری روایت ہے ؟ خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کی تو دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کا کام ہی منصفانہ انتخابات کا انعقادہوتا ہے، لیکن یہاں دبائو کام کرجاتا ہے، جیسے کئی رہنمائوں کے معاملے نے کئی مشکوک راہیں کھول دی ہیں، کہ نااہل شخص بھی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب ابھی جن کے مقدمات کے فیصلے بھی نہیں ہوئے اُنہیں ڈسکوالیفائی کیا جا رہا ہے۔ اسقسم کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے بھی الیکشن کمیشن کی خاصی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ خیر یہ دبائو کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ دنیا بھر میں الیکشن کمیشن بارعب ہوتا ہے، اُس سے حکومت سمیت تمام ادارے خوف کھاتے ہیںکہ کہیں وہ اپنے اختیارات استعمال نہ کر لے لیکن یہاں الیکشن کمیشن حکومت اور طاقتور لوگوں سے ڈر جاتا ہے، اُن کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے۔ یقین مانیں یہ بھی الیکشن کمیشن ہی کی بدولت ہے کہ یہاں کوئی بھی وزیر مشیر الزام لگنے کی صورت میں کام کرتا رہتا ہے، ورنہ مہذب ملکوں میں تو کسی پر الزام لگ جائے تو وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہے۔ اگر عوام اس پر شکوہ کریں تو ہم بتایا دیا جاتا ہے کہ آپ غلط ہیں بقول غلام ہمدانی دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر بہرکیف اگر الیکشن کمیشن مضبوط نہیں ہوگا تواگلے پانچ سال ملک غیر مستحکم ہوگا۔ ہر سیٹ پر 60، 65کروڑ روپے لگنا عام بات ہو جائے گی، اور منتخب ہونے والا رکن سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرے گا۔ رہی بات الیکشن کمیشن پر دبائو کی تو یہ ایک آئینی ادراہ ہے ۔الیکشن کمیشن کو انقلابی تبدیلیوں کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے ، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو ڈی ریل کرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50سال پیچھے چلے جائیں گے!