احتجاجی شہریوں کے خلاف ہونے والی ریاستی کارروائیوں کا آغاز 9مئی سے بہت پہلے ہو گیا تھا۔چنانچہ یہ جانے بغیر کہ ایک حالیہ افسوس ناک واقعے میں قصور وار کون ہے،اس بات کا اندازہ لگانا کہ عوام کی غالب اکثریت کی ہمدردیاں کس طرف ہیں،ہر گزدشوار نہیں۔ مہینوں ریاست کے ہاتھوں معتوب رہنے والی سیاسی جماعت کے ہمدردوں اور سوشل میڈیا پر اُن کے ’واریئرز‘ میں حسبِ توقع بہت جوش و خروش دیکھنے کو ملا ہے۔ ہر چند کہ وہ پولیس والوںکی دھلائی پر سرشار رہے، مگر ایک ہی سانس میں فریقِ ثانی کو بھی آڑے ہاتھوں لینے کا نادرموقع یوںگنوانے کو تیار نہیں تھے۔ اِن ہزاروں غیر معروف پاکستانیوں پر الزام ہے کہ وہ قومی سطح پر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔دوسری طرف حکمران جماعت والوں کی خاموشی قابلِ فہم رہی ہے۔اندازہ تو یہی ہے کہ اس نازک موڑ پر وہ اسی شش وپنج میں رہے کہ انہیںکس طرف مُڑنا ہے ۔ حکومتی ترجمانوں کے لئے بھی وقتی طورپرہی سہی،اس حساس موضوع پریوں فراوانی کے ساتھ اظہارِ خیال کرنا ممکن دکھائی نہیں دیا،جس کے وہ عام طور پر عادی رہے ہیں۔عقل مندی کا تقاضا بھی یہی تھا۔اس بیچ، وہ نام نہاد’جمہوریت پسند‘جنہوں نے حالیہ مہینوں میں ثابت کیا کہ ان کا عنادکسی ارفع دائمی اصول کی بنیادوں پر استوار نہیں، اس واقعے کو لے کر ایک بار پھرسرگرم رہے۔ کئی مہینوں کے بعد اُن کو آئین اور قانون کی بالا دستی اور سویلین حکمرانی کی یاد ایک بار پھرشدت سے ستانے لگی ۔ عید سے ایک روز قبل لکھے گئے اپنے انگریزی مضمون میں معروف صحافی عارفہ نور نے عمومی طور پر پی ٹی آئی کے’سوشل میڈیا واریئرز ‘کے سامنے حکومتی ترجمانوں سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی بے بسی اور اُن پر کوسوںکی برتری کے اسباب کا خلاصہ کیا ہے۔مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ اکثر ریاستیں سوشل میڈیا سے عاجز و بیزاررہتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ باقیوں کی طرح حکمران جماعت بھی گذشتہ کئی برسوں سے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استوار کرنے کے لئے کوشاں رہی ہے۔خاتون حکمران کی تو پہچان ہی ان کا سوشل میڈیا سیل رہا ہے۔صوبائی حکومت سنبھالنے کے بعد انہی کو ششوں کے تسلسل میں جاری ہونے والی اُن کی ویڈیوزکا تذکرہ تو اب زبان زدِ عام ہے۔تاہم اس سب کے باوجودیہی حکومت( اور اس سے قبل نگران حکومت کہ جو اسی حکومت کی ہم زادتھی)، سوشل میڈیا سے مسلسل شاکی چلی آرہی ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر عائد کردہ آئے روز کی قدغنیںاب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںرہی۔یہ اور بات ہے کہ سابق نگران وزیر اطلاعات جو خود بھی ایک صحافی ہیں،ایسی کسی حکومتی پالیسی سے انکار اور ایکس (ٹویٹر)کی بندش کی تردید کرتے ہوئے فرمایاکرتے تھے کہ’ جسے شک ہے وہ ’وی پی این ‘پر ایکس کو چلا کر دیکھ لے‘۔اگلے روز ٹی وی چینلز اور یو ٹیوب پر براہِ راست دکھائی جانے والی عدالتی کارروائی کے دوران بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے مسلسل جھوٹ کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے مستقبل سے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اسی کارروائی کے دوران چھ ججوں کی شکایات کی چھان بین کے لئے قائم کردہ کمیشن کے سربراہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور اس سے پیدا ہونے والے دبائوکے نتیجے میں تفویض کی گئی ذمہ داری سے پہلو تہی پر مجبورہو جانے کا تذکرہ بھی بے حد تاسف کے ساتھ کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں جج صاحب نے مبینہ طور پر ایسے کسی دبائو سے انکار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو لکھے گئے اپنے خط میں درج کی گئی وجوہات کو ہی درست قرار دیا۔ تاہم پہلی سماعت کے بعد جاری ہونے والے حکم نامے میں پہلی بات پر ہی اصرار کیا گیا ہے۔پولیس کی پریس ریلیز میں بھی ایک’ معمولی واقعے ‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کئے جانے کا بتایا گیا ہے۔اندریں حالات کہا جا سکتا ہے کہ ریاست سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلائے جانے کی روش سے متعلق بجا طور پر فکر مند ہے۔چنانچہ اب جبکہ مین سٹریم میڈیا درست راستے پر چل رہا ہے، سوشل میڈیا کی سمت درست کئے جانے کے امکانات کو سرے سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سارے عوامل کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ ہم شخصی انائوں اورگروہی تعصبات کا اسیر معاشرہ بنتے چلے جا رہے ہیں کہ جہاں قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان کھڑے ہو چکے ہوں۔کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ہم اندھی طاقت پر استوار ایک ایسے قدیم قبائلی معاشرے میں جی رہے ہیں کہ جہاںمعاملات انصاف اور قانون پر نہیں،قبائلی تعصبات ، وقتی مفادات اور طاقت کے بل بوتے پرطے پا تے ہیں۔برسوں پہلے پنجاب کی موجودہ وزیرِ اعلیٰ نے ہمیں بتایا تھا کہ’ طاقت ہی طاقت سے بات کرتی ہے۔‘ حال ہی میں اقتدار سنبھالتے ہی محترمہ نے ریاستی طاقت کے بل بوتے پر ہی یہ انتباہ بھی کیا تھاکہ وہ احتجاج کرنے والوںکے ساتھ ’سفاکی‘ سے نمٹیں گی۔ہم جانتے ہیں کہ طاقت سفاک(Ruthless) ہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی ریاستیں اسی ننگی طاقت سے لیس ہوتی ہیں۔ ریاست کی اسی طاقت کو عوام کے لئے رحمت میں بدلنے کے لئے اسے طے شدہ قوانین کے تابع کیا جاتا ہے۔ مہذب ریاستوں میں ریاستی ادارے انہی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے طاقتور ادارے جب خود قانون سے تجاوز کرتے ہیں تو عدالتیں ان کی اندھی طاقت کے سامنے آڑے آتی ہیں۔ جزیرہ نما برطانیہ کے زیرِ نگین عالمی راجدھانی پرسورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔جرمن بمباری کے اندر اپنی بقاء کی جنگ لڑ تے لندن کے شہریوں نے گھبرا کر چر چل سے پوچھا تھا،’اب کیا ہوگا؟‘ چرچل نے پلٹ کرسوال کیا،’ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟‘ عشروں پہلے یہ جملہ سُنا تھا اور پھر بار بارسُنا۔ خدا گواہ ہے کبھی اس میں چھپی دانش کی طرف ذہن نہیں گیا تھا۔اب کہیں جا کر اس تاریخی جملے میں پوشیدہ حکمت کا ادراک ہواہے۔انگریزوں کے دیس کی بات چلی ہے توایک انگریز جج صاحب کی بات کرتے ہیں ۔جھیل کے کنارے بیٹھے جو مچھلی کا شکارکھیل رہے تھے۔بیٹھے بیٹھے ایک شخص اُن کے سامنے کہیں سے نمودار ہوا ، جھیل میں چھلانگ لگائی اور ڈوبنے لگا۔ جج صاحب خاموشی کے ساتھ بیٹھے اسے ڈوبتا دیکھتے اور مچھلیاں پکڑتے رہے۔بعد ازاں لوگوں نے جج صاحب سے پوچھا،’ حضور، آنکھوں کے سامنے ایک شخص ڈوبتا رہا،عزت مآب نے کوئی کارروائی تک نہ کی؟‘می لارڈ نے فرمایا، ’ The matter was not brought before me۔‘ ہمارا اندازہ یہی ہے کہ اس قصے میں مذکورمعزز جج صاحب یقینا اس دور کا میڈیا تو با لکل بھی نہیں دیکھتے ہوں گے۔ سامنے کیا بیت رہی ہے،وگرنہ یوں بے خبر نہ ہوتے۔ آج زندہ ہوتے تو سوشل میڈیا کو ہی معاشرے میں جھوٹ پھیلانے اور تمام تر مسائل کا ذمہ دار سمجھتے۔ پولیس کی پریس ریلیز بھی تو لگ بھگ یہی بات کہہ رہی ہے۔