جب کبھی کراچی کے کسی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو یادوں کی ایک یلغار میرا پیچھا کرتی ہے۔ سوچتا ہوں کبھی یہ مانوس سی جگہ تھی لیکن اب بہت کچھ بدل گیا۔ آزادی کے بعد سے آج تک کراچی نے مختلف دہائیوں میں اپنا رنگ و روپ اسی طرح بدلا کہ ایک رنگ دوسرے سے اجنبی ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت کی مٹی کا رشتہ آنے والے وقت کی مٹی سے کمزور اور ماند پڑتا چلا گیا۔ کراچی میں واقع قبرستانوں میں بے ہنگم انداز میں قبروں کی قطاروں میں لگے کتبے گواہی دے رہے ہیں کہ کیسے کیسے نادر اور انمول لوگ اس شہر میں بستے تھے۔ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات کا ایک جنگل ہے جو بنا کسی منصوبہ بندی کے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ شہر اپنی پرانی ثقافتی اور تہذیبی پہچان کھو بیٹھا ہے۔ یہاں شہری ادارے اس شہر کی منصوبہ بندی کا فریضہ انجام دینے کے بجائے اپنے اپنے ’’سسٹم‘‘ کے تحت جیب کتروں کی طرح اس کے مکینوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ ’’شکستہ تہذیب‘‘ ایک ایسی تصنیف ہے جس میں شاہ ولی اللہ جنیدی جیسے متحرک اور مستعد صحافی، محقق اور قلمکار نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر سے وابستہ بکھری یادوں، اس کے تہذیبی اور تمدنی ارتقاء اور آج چاروں طرف پھیلتے اور اپنا رنگ بدلتے اس کے یادگار، خوشنما اور مایوس کن لمحات کو اپنی تحقیق اور قلم کی جادوگری سے وہ سب کچھ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پڑھنے والا ماضی میں گم ہو کر کراچی کی مختلف بستیوں کے دلکش ماحول اور مناظر میں غوطے کھانے لگے۔ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کی یہ بستیاں جس نے دیکھیں اور جس نے نہ دیکھیں سب ہی اس انداز اور منظر کشی کے حقیقی اسلوب میں اندازہ کر سکتے ہیں کہ شہر قائد کی یہ ابتدائی بستیاں منصوبہ بندی، آباد کاری کے طریقہ کار، عوامی بہبود کے منصوبوں، کھیل کے میدانوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور زندگی کے ہر شعبے میں کس درجہ خود کفیل تھیں ۔میں چونکہ نصف صدی سے ان علاقوں میں رہتا آیا ہوں اس لیے اس بات کا گواہ ہوں کہ شاہ ولی اللہ نے کیا خوب ان جیتے جاگتے علاقوں میں رہنے والوں کی طرز معاشرت، انداز فکر، تہذیب کو اس طرح ’’شکستہ تہذیب‘‘ کا روپ دیا جس پر سچ مچ انہیں شاباش دینے کو دل چاہتا ہے۔ وہ بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ ناظم آباد کے تمام بلاک ایک مثالی زندگی کا درجہ رکھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ میرے دوست بھی ہیں اور میں نے انہیں گزشتہ 25سال سے صحافت کے میدان میں بالائی سیڑھیوں کو پھلانگتے دیکھا ہے۔ 1998ء میں ان سے جب میری ملاقات ہوئی تو میرے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ہنس مکھ اور چلبلا سا نوجوان آگے چل کر ایک رپورٹر سے کتنی سرعت سے ایک محقق اور دانشور کا روپ دھارے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھے صحافی کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ مطالعہ، تحقیق اور مشاہدات پر توجہ دے۔ سچ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ جذبات میں مغلوب نہ ہو۔ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں تاریخ روزانہ ہی قلمبند کی جاتی ہے۔ بہت کچھ قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک صحافی کا پرتجسس ہونا اس کی وہ خوبی ہے جو اسے خبر کی تلاش اور کچھ نیا کرنے پر اکساتی ہے۔ پھر جب وہ شاہ ولی اللہ کی طرح بدلتی معاشرت، تمدن اور مختلف بستیوں اور آبادیوں میں برپا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو ابتدا میں بے شمار خوشگوار یادیں اور ساتھ ساتھ تلخ حقائق بھی اجاگر ہوتے جاتے ہیں۔ ’’شکستہ تہذیب‘‘ مجھے ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کے علاقوں کے بنیادی ڈھانچے ،تاریخ کی مختلف کروٹیں، یہاں رہنے والے ایسے چمکتے دمکتے ستارے، جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں خود کو نہ صرف منوایا بلکہ وہ ان علاقوں کا فخر ہیں، اس تصنیف کو پڑھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان علاقوں کا نوحہ ہے جس میں گزرے دنوں کی خوشگوار یادیں، باہم صحبتیں اور ایک دوسرے کی سرپرستی کے علاوہ کھیلوں سے لے کر سماجی اور ادبی شعور کے پھیلائو اور پھر تنزلی اور بدلتے وقت کی تمام گرہیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ یہ دونوں وہ علاقے ہیں جہاں میں خود بھی کئی سال رہا۔ اس لیے یادوں کے اس ہجوم کو مصنف نے جس طرح بیان کیا میں ان تمام تبدیلیوں کا عینی شاہد ہوں اور اس کے ہر لفظ اور بیان کئے گئے بدلتے ہر رنگ کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ میں ان تمام بڑے لوگوں سے نیاز مندی کا رشتہ رکھتا ہوں۔ پروین شاکر نارتھ ناظم Hبلاک میں رہتی تھیں اور ہماری پڑوسی تھیں۔ اس وقت عبداللہ کالج میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں، بعد میں وہ سول سروس کا امتحان پاس کر کے کسٹمز سروسز میں چلی گئیں۔ نصراللہ خان بھی ہمارے بلاک میں رہتے تھے۔ حریت میں ان کے کالم کی دھوم تھی۔ خدا کی بستی کے خالق شوکت صدیقی ایل بلاک میں رہا کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے ناجانے کتنی ایسی شخصیات کی یاد تازہ کر دی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایک وہ وقت تھا جب ہر شعبے کے مثالی افراد یہاں رہا کرتے تھے۔ سچ پوچھیں تو میں اب جب کبھی ان علاقوں میں دوست احباب سے ملنے جاتا ہوں تو پرانی سہانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ پھر میں نے متمول لوگوں کی آبادی میں رہائش اختیار کی۔ یہ خوبصورت بستی ہے، ہر طرف سبزہ ہے۔ سڑکوں پر صفائی اور رات ہوتے ہی قمقموں کی بہار۔ کشادہ سڑکیں بڑے بڑے عالیشان گھر، مہنگی کاریں۔ ہاں یہ درست ہے کہ اس آبادی میں ہر دوسری کار آپ کو نئے ماڈل کی ملے گی۔ یہاں بھی ادب سے دلچسپی رکھنے والے کچھ لوگ رہتے ہیں جو اپنے حال اور مال میں مست ہیں۔ یہاں آپ کو کوئی پیدل چلتا نظر نہیں آئے گا۔ یہاں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہاں لوگوں کے روئیے بدلے بدلے لگتے ہیں۔ بستیوں کا طرز معاشرت مکینوں کے مابین فاصلے پیدا کر دیتا ہے۔ مجھے اسی لیے نارتھ ناظم آباد میں گزرا ہوا وقت ہمیشہ یاد آتا ہے۔ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں رہنے والوں کی بڑی تعداد وہی تھی جو ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ ان کا رہن سہن، تہذیب اور انداز فکر نے باہم فاصلے مٹا دیئے تھے۔ میری خواہش ہو گی کہ شاہ ولی اللہ کراچی کی تمام بستیوں پر ایک گہری نظر ڈال کر ہمیں بھی اس شہر کے متعلق کچھ معلومات بہم پہچانے کا سامان پیدا کریں۔ ’’شکستہ تہذیب‘‘ میں شاہ ولی اللہ نے ان علاقوں میں ہونے والی سماجی اور ادبی تقریبات، یہاں خود رو پودوں کی طرح قائم ہونے والی کچی بستیاں، زبان و تہذیب، سیاسی گہما گہمی، تعلیمی اداروں سے لے کر کھیلوں کے میدان۔ یہاں قائم ہونے والے ریستوران، اسماعیلی اور بوہری جماعت خانے معروف مساجد۔ سڑکوں کے جال، پاپوش نگر اور سخی حسن کے قبرستان، لائبریریوں، مالیاتی اداروں کے دفاتر اہم سیاسی گھرانوں کا تذکرہ شاہ ولی اللہ کی زبردست کاوش ہے۔ یہ بستیاں گم شدہ ثقافت اور تہذیب کے ماضی سے روشناس کراتی ہیں۔ کراچی کی ہر داستان بڑے دلچسپ ہے۔ میری دعا ہے کہ شاہ ولی اللہ کراچی کے دیگر علاقوں اور بستیوں پر بھی قلم اٹھائیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کراچی کی ان بستیوں کا گمشدہ حسن اور خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی رواداری، اخوت واپس بھی آئے گی یا پھر ان کا ذکر ہماری یادوں اور تذکروں تک باقی رہ جائے گا۔