جنوری 1965کی ایک شام جنرل ایوب خان کے صدر منتخب ہونے پر ان کے جواں سالہ فرزند ارجمند گوہر ایوب نے ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی سڑکوں پر فتح کا جشن منایا۔ یہ جلوس جب لیاقت آباد سے گزراتو اس میں شامل کچھ افراد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے جلوس اور علاقے کے لوگوںکے درمیان تصادم ہو گیا ۔جس کے نتیجے میں 32 سے زائد لوگ اپنی جان سے چلے گئے املاک کو نقصان پہنچا اور شہر میں لسانی اور نسلی عصبیت کی لکیریں واضح طور پر نمایاں ہوگئیں ۔اہل کراچی کا قصور صرف اتنا تھا کہ یہاں کے با شعور شہریوں نے ایوب خاںکے مقابلے میں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدر پاکستان کی حیثیت سے دیکھنا چاہا۔ یہ کراچی کی سیاسی حرکیات کا ابتدائیہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے وقت کراچی شہر کی آبادی تقریبا ساڑھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ لسانی اور مذہبی تنوع کے باوجود اسے ایک پرسکون ساحلی شہر کی حیثیت حاصل تھی ۔ 1951 میں اس کی آبادی ساڑھے گیارہ لاکھ ، 1961 میں انیس لاکھ چون ہزار، 1972 میں چونتیس لاکھ اکسٹھ ہزار، 1981 میں باون لاکھ سڑسٹھ ہزار ، 1998 میںترانوے لاکھ چھیالیس ہزار اور 2017 کی متنازع مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ شمار کی گئی جب کہ 2023 میں کی جانے والی مردم شماری کے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ بڑھ کر ایک کروڑ نوے لاکھ ہو چکی ہے۔ جب کہ اہل کراچی کے مطابق یہ ساڑھے تین کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے۔کراچی کی آبادی کو درست شمار نہ کرنے سے قومی اور صوبائی ہر دو سطح پر اسے سیاسی خسارے کا سامنا رہتا ہے،بالخصوص صوبائی سطح پر اس کی گنتی کم ہو نے سے اقتدار کی صوبائی سیاست میں اسے مستقل اقلیتی کردار کا سامنا ہے۔ سن سترکے انتخابات میں کراچی کے نتائج انتہائی دلچسپ اور متوازن رائے کا مظہر رہے۔ ان انتخابات میں کراچی کی کل سات نشستیں تھیں۔دو پر پاکستان پپلز پارٹی، دو پر جماعت اسلامی،دو پر جمیعت علمائے پاکستان اور ایک پر آزاد امیدوار نے جماعت اسلامی کی حمایت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ نتائج کے اس متنوع اور متوازن اظہار سے کراچی کو حزب اختلاف کا شہر ہونے کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس کا جمہوری سیاسی تشخص وفاق کی مقتدر قوتوں کی نظروں میں آگیا اس پر مستزاد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے کراچی ،حیدر آباد اور سکھر کو ایک نئی سیاسی ہیئت سے روشناس کرایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے وفاق اور صوبہ میں سرکاری ملازمتوں میں سندھ کے دیہی علاقوں کی یقینی نمائندگی کے لئے سندھ کو شہری اور دیہی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہو ئے صوبہ کی سطح پر کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔ اس تقسیم کو دس سال کا آئینی تحفظ دیا گیا ۔اس تقسیم سے سندھ شہری چالیس اور سندھ دیہی ساٹھ فیصد کے حقدار ہوںگے ۔ اسی طرح مرکز میں ملازمتوں میں جو سندھ کا حصہ ہوگا وہ بھی شہری اور دیہی کی بنیاد پر منقسم ہوگا۔ذوالفقار علی بھٹو یہ سمجھتے تھے کہ سندھ دیہی سندھ شہری علاقوں کے مقابلے میں کم سہولیات کا حامل ہے، لہذا جب تک یہ سہولیات سندھ کے تمام علاقوں میں یکساں نہیں ہو جاتیں اس وقت تک یہ انتظام (عارضی طور پر ) ضروری ہے ۔ اور یہ عارضی مدت دس سال تجویز کی گئی تھی۔سہولیات کی کمی کی بنیاد پر شہری اور دیہی کی تقسیم کو محض سندھ تک محدود رکھا گیا،جس سے مختلف نوعیت کے سوالات نے جنم لیا۔کیا ملک کے دیگر صوبوں کے تمام علاقوں میں سہولیات یکساں طور پر موجود تھیں کیا پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقے یکساں ترقی یافتہ تھے کیا خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اس طرح کی تقسیم ضروری نہیں تھی صرف سندھ کی حد تک اس تقسیم کے گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔کراچی میں بالخصوص بھارت کے مختلف علاقوں سے آنے والے اردو بولنے والوں کی اکثریت نے شہر کی نئی سیاسی اور سماجی حرکیات کو جنم دیا۔شہری اور دیہی تفریق نے سندھ کی سیاست کو واضح طور پر دو لسانی اکائیوں میں منقسم کردیا۔دس سال کے لئے کی جانے والی یہ عارضی تقسیم مصلحت کوش اور عاقبت نااندیش حکمرانوں نے پچاس سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح جاری رکھی ہوئی ہے،یہ سمجھے بغیر کہ اس تقسیم نے سندھ کی سیاست کو غیر ضروری طور پر عصبیت سے آلودہ کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی،شہری سہولیات کی فراہمی سے مسلسل غفلت اور عدم توجہی اور انتظامی نا اہلی نے اہل کراچی کو قومی اجنبیت سے دوچار کر دیا ہے۔جس کا موثر اور واضح اظہار 1985ء اور اس کے بعد کے سیاسی حالات میں نظر آنا شروع ہوا۔اگرمسائل کے حل کرنے کی طرف بر وقت توجہ دے دی جائے،محرومیوں کے احساس کا تدارک کر دیا جائے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنادیا جائے تو عصبیت کی بیخ کنی ممکن ہے اور ایسی قوتوں کو پنپنے کا حوصلہ نہ ہو، جو مسائل کی موجودگی پر سیاست کرنا تو جانتی ہیں ۔ 1970 سے 1985کے درمیان ہونے والے انتخابات میں کراچی نے متوازن سیاسی رویے کا اظہار کیا۔پاکستان پپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمیعت العلمائے پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ہر ایک کو نمائندگی کو موقع ملتا رہا مگر کراچی کے مسائل اور دکھوں کا مداوا نہ ہوسکا۔پاکستان پیپلز پارٹی جو وفاق میں کئی بار حکمران رہی اور سندھ پر تو کم و بیش گزشتہ کئی عشروں سے مسلسل حکمران ہے مگر سندھ پر کسی اردو بولنے والے شہری علاقے کے کسی نمائندے کو سندھ کی وزارت اعلی کے لئے موزوں خیال نہیں کیا گیا۔ کراچی کو سندھ کا ناگزیر حصہ تو قرار دیا جاتا ہے مگر پی پی پی سمیت کوئی بھی قومی سیاسی جماعت اسے اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ یہ وہ حالات تھے جن کی موجودگی میں سندھ کی شہری سطح پر ایک ایسی سیاسی تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر دیا جس کی اٹھان لسانیت ، مقامی مسائل اور شہری آبادی کے ساتھ ر وا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر ہوئی تھی۔کراچی کو مسلسل نظر انداز کئے جانے سے یہاں کی سیاسی حرکیات میں اب تبدیلی آچکی تھی الطاف حسین کی قیادت میں قائم مہاجر قومی موومنٹ ( بعد میں متحدہ قومی موومنٹ ) اپنے مقبول عام نعروں کے باعث بہت جلد کراچی اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں عوام کو اپنا ہم نوا ( دیوانہ) بنالیا۔1987 میں ہونے ولے بلدیاتی انتخابات میں مہاجر قومی موومنٹ نے حق پرست گروپ کے نام سے شرکت کی اور غیر معمولی کامیابی حا صل کی ۔1988 میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کراچی کے لئے مختص تیرہ نشستوں میں سے گیارہ پر حق پرست گروپ نے کامیابی حاصل کی جب کہ دو پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ا س کے بعد سیاسی کامیابی کا یہ سفر جاری رہا۔ اور متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں اپنی سیاسی بالادستی قائم کرلی۔متحدہ قومی موومنٹ کا کراچی کی سیاست میں عروج عصبیت زدہ ماحول میں ہوا تھا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عصبیت کی بنیاد پر سیاسی گروہوں کی تشکیل میں تخریب کا پہلو ہمیشہ نمایاں ہوتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی اس سے مستثنی نہیں۔ (جاری ہے)