لتھوانیا کے شہر ولنیئس میں دو روزہ سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہونے والے نیٹو کے رہنماؤں نے 11 جولائی 2023 کو سویڈن کی جانب سے امریکہ کے حمایت یافتہ دفاعی معاہدے کی رکنیت کی درخواست پر ترکی کے اعتراضات واپس لینے کے بعد نیٹو میں سویڈن کی رکنیت پر اتفاق کیا ہے۔ سویڈن کے باقاعدہ رکن بن جانے کے بعد نیٹو کے ممبران کی تعداد 32 ہو جائیگی۔ اَلبتہ اِس سربراہی اِجلاس میں یوکرائن کو نیٹو کا باقاعدہ رکن بننے کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی گئی۔ اِس سے قبل فِن لینڈ نے 4 اپریل 2023 کو باضابطہ طور پر نیٹو میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ عین اس وقت ہوا جب نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) نے برسلز میں اپنی 74 ویں سالگرہ منائی۔ یوکرائن پر روس کے حملے کے بعد فِن لینڈ اور سویڈن نے رکنیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دی جس کے نتیجے میں فِن لینڈ 29 یورپی ممالک، کینیڈا اور اَمریکہ پر مشتمل فوجی اِتحاد کا 31 واں رکن بن گیا ہے۔ فِن لینڈ کے رکن بننے کے بعد روس کے ساتھ نیٹو کی باؤنڈری لائن تقریباً دوگنی ہوگئی۔ 1949 میں قائم ہونے والا نیٹو اتحاد سرد جنگ کے دوران امریکہ کی روس کے خلاف بنائی گئی Containment Policy کا اہم جزو تھا۔ نیٹو کے قیام کے مقاصد کے متعلق لارڈ ہیسٹنگز لیونل اسمائے جو نیٹو کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے نے یہ کہا تھا کہ نیٹو "سوویت یونین کو (یورپ سے) باہر رکھنے، امریکیوں کو اندر رکھنے اور جرمنوں کو نیچے رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔" نیٹو، سرد جنگ کے دوران مغربی ممالک سمیت امریکہ کی دفاعی حکمت عملی کے سنگ بنیادوں میں سے ایک تھا کیونکہ نیٹو معاہدے میں آرٹیکل 5 اِنتہائی اہم شق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیٹو کے کسی بھی رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ امریکہ اور سابق سوویت یونین کے مابین تقریباً پانچ دہائیاں جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران نیٹو ایک اہم دفاعی اِتحاد کے طور پر فعال رہا۔ اَلبتہ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی نیٹو میں توسیع ہوئی اور اس کے رکن ملکوں کی تعداد میں اِضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ بظاہر نیٹو کی توسیع کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ سرد جنگ کے تناظر میں تشکیل پانے والے اِس دفاعی اِتحاد کو درپیش ممکنہ خطرہ اب ٹل چکا تھا لیکن روس کے تحفظات کے باوجود اَمریکہ نے مشرقی یورپ کی طرف نیٹو کی توسیع نہ صرف حمایت جاری رکھی بلکہ اس کو ممکن بنایا۔ 1999ء میں چیک ری پبلک، پولینڈ اور ہنگری کی نیٹو میں شمولیت کے ساتھ نیٹو کی توسیع کا عمل شروع ہوا،جو 2020ء میں شمالی مقدونیہ کے رکن بننے تک جاری رہا۔ آخر کونسے عوامل ہیں جنہوں نے نیٹو کی توسیع کے عمل کو تیز کیا اور فن لینڈ سویڈن جیسے ملکوں نے بھی پچاس سال سے جاری اپنی "عسکری غیروابستہ پالیسی" کو ختم کرتے ہوئے نیٹو جیسے دفاعی اِتحاد میں باقاعدہ شمولیت اِختیار کرنے کی طرف راغب ہوئے۔ حالانکہ پہلی بار 2014ء میں کریمیا پر روس کے حملے کے بعد سے یوکرائن سمیت روس کے ہمسایہ ملکوں میں روس کے جارحانہ عزائم کے بارے میں پریشانی شروع ہوگئی تھی مگر اِس کے باوجود ایک وقت ایسا آیا تھا جب فرانس جیسے ملک نے نیٹو کی بقاء کے جواز پر سوالات اٹھانے شروع کردیے حتیٰ کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے 2019ء میں لندن سربراہی اجلاس کے موقع پر نیٹو کو "دماغی مردہ" قرار دیا تھا۔ میکرون نے نیٹو کے رکن یورپی ملکوں پر فوجی اِتحاد کے مالی بوجھ بانٹنے کے خلاف یہ توجیہ دی تھی کہ اس کے ممبران کے پاس یورپ میں سلامتی کے حوالے سے کوئی مشترکہ ویژن یا مشترکہ مقاصد نہیں تھے، اور یہ دعویٰ کیا کہ دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے جبکہ چین یا روس نہیں۔ دوسری طرف اَمریکہ کے صدر ٹرمپ نے نیٹو کے رکن یورپی ممالک سے نیٹو کے دفاعی اخراجات میں مزید حصہ ڈالنے کا مطالبہ کردیا جبکہ نیٹو کو صرف اَمریکہ کی ذمہ داری ماننے سے اِنکار کردیا۔ اِسی طرح 2021ء میں اَفغانستان سے اَمریکی افواج کے اِنخلاء کے موقع پر اَمریکہ نے اپنی ترجیحات اور مفادات کا خیال رکھا اور نیٹو میں شامل یورپی ملکوں کی افواج کو اپنی افواج کے اِنخلاء کے بارے مین بنائی گئی حکمتِ عملی میں شامل نہیں کیا جس سے فرانس اور جرمنی جیسے طاقتور یورپی ملکوں نے یورپی ممالک کی اپنی علیحدہ دفاعی فورس کے قیام کے متعلق سوچنا شروع کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کونسے عوامل جن کی بناء پر یورپی ممالک کی سوچ تبدیل ہوگئی اور انہوں نے نیٹو کو مزید فعال کرنے کے ساتھ اس کی توسیع کے بھی پرجوش حامی بن گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 1948ء میں فِن لینڈ نے سوویت یونین کے ساتھ "دوستی کے معاہدے" کے تحت ایک غیر جانبدار ملک بننے پر اتفاق کیا کیونکہ فِن لینڈ کی روس کے ساتھ 1,340 کلومیٹر (832 میل) طویل زمینی سرحد ہے جبکہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور مغربی یورپی ملکوں کے درمیان غیر جانبداری کی پالیسی کو "فن لینڈائزیشن" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ فن لینڈائزیشن یوکرائن پر روس کے حملے سے پہلے یوکرائن کے لیے زیر بحث آپشنز میں سے ایک اہم آپشن تھی۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق نیٹو کی حالیہ توسیع بالخصوص فِن لینڈ اور سویڈن جیسے غیر جانبدار ملکوں کی نیٹو اِتحاد میں شامل ہونے کے لیے پرجوش دلچسپی کے پیچھے روس کے صدر پیوٹن کے یوکرائن کے علاقوں پر قبضہ جیسے جارحانہ اقدام کا ہاتھ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نیٹو ممالک کے دفاعی اِتحاد کو دوبارہ ایک نئی زندگی عطاکرنے کا سہرا روسی صدر پیوٹن کو جاتا ہے۔ اگر روس، یوکرائن پر حملہ نہ کرتا تو فرانسیسی صدر میکرون کی نیٹو کے متعلق اپروچ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید اِس وقت نیٹو اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہوتا بجائے اِس کے کہ نیٹو ممالک روس کے خلاف یوکرائن کو اربوں ڈالر کی اِمداد فراہم کرتے۔ اَمریکہ کی قیادت میں نیٹو اِتحاد کا اَثرورسوخ یورپ میں بڑھ رہا ہے جسکے رکن ملکوں کی تعداد میں واضح اِضافہ اسکا عملی ثبوت ہے۔ اِس عمل کی دو مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہین۔ روس کے بقول سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹوکی توسیع کا کوئی ٹھوس جواز نہیں اور نیٹو کی مسلسل توسیع روس کے مستقل گھیراؤ اور اس پر مسلسل دباؤ رکھنے کے لیے ہے تاکہ اَمریکہ کی یورپ میں بالادستی ہمیشہ کے لیے برقرار رہ سکے۔ دوسری طرف نیٹو کی توسیع کے معاملے میں اَمریکہ کا کہنا ہے کہ نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے،جس کا مقصد اپنے ارکان کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے منصوبے فروری 2022ء کے آخر میں روس کے یوکرائن پر حملہ کرنے کے بعد سامنے آئے تھے جبکہ یوکرائن پر روسی حملے کا مقصد مبینہ طور پر اسے نیٹو میں شمولیت سے روکنا تھا۔ فن لینڈ کی طرح یوکرائن کی بھی روس کے ساتھ ایک لمبی سرحد ہے۔ یوکرائن پر گزشتہ سال کے روسی حملے کے بعد سے یورپ کی جیو پولیٹیکل صورتحال تبدیل ہوگئی ہے یورپی ممالک کے عوام سمیت حکمرانوں کی بھی روس کے متعلق سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے روس کو یورپ کے اِستحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اپنی صفوں میں مزید اتحاد پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت سمجھا ہے اِسی لیے نیٹو جیسے دفاعی اِتحاد کی توسیع کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔