پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں آج تک آرمی چیف کی تعیناتی میں کبھی بھی اتنا سسپنس دکھائی نہیں دیا۔لیکن ایک روایت ضرور قائم کی گئی کہ سنیارٹی کے اصول کو اپنایا گیا اور لیفٹیننٹ جنرلز سنیارٹی کے اعتبار سے تھری اسٹارز سے فور اسٹارز میں ترقی پا گئے ہیں۔اس طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے فوج کی آئندہ قیادت کے متعلق اپنا حتمی فیصلہ کر لیا۔اب یہ ایڈوائس نوٹیفکیشن سے پہلے آخری منظوری کے لئے صدر مملکت کے پاس بھجوا دی گئی ہے۔یقینا صدر مملکت جلد یا بدیر اس پر دستخط کر دیں گے۔اس تقرری سے قبل فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں بڑی سچائی کے ساتھ کئی ایسی حقیقتوں کو اجاگر کیا۔مجھے ان کا جذبہ اور کمٹمنٹ لفظوں کا محتاج دکھائی نہیں دیا ،ان کے جملے توانا اعصاب پر جوش اور خیالات مستقبل کی واضح تصویر پیش کر رہے تھے۔انہوں نے پاکستان کی پوری تاریخ کو چنیدہ فقروں میں سمیٹا اور اس میں ماضی قریب کے تمام سیاق و سباق کو تراشا۔ وہ اپنے ہر جملے اور فقرے کو پوری سچائی سے بیان کرتے جا رہے تھے۔جب انہوں سلیکٹڈ اور امپورٹیڈ جیسے سیاسی نعروں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کھلاڑیوں کو بھی میدان میں رولز آف گیم کا خیال رکھنا چاہیے۔وہ اعلان کر رہے تھے کہ فوج پیچھے ہٹ گئی ہے۔ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ہم نے بہت سی حقیقتوں کا ادراک کر لیا ہے۔انہوں نے سیاستدانوں اور دوسرے تمام اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب رک کر فیصلہ کریں کہ ہم سب آئین و قانون کے مطابق چلیں گے اس طرح تمام ادارے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ایسا لگا وہ کہہ رہے ہوں کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ،ہر ملک کے خصوصی ماحول‘ حالات اور آئینی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے، تب ہی وہ ایک جمہوریت ہو سکتی ہے۔یہ حقیقت بھی ہے کہ جمہوریت وہی ہے جو عام لوگوں کو بااختیار بنائے اور ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو ان کی عوام کی ضروریات کو پورا کریں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ جمہوریت کی ایک نقل ہوتی ہے ،جس میں نہ اس کی روح ہے نہ مادہ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت سے ایسے نظام ہیں۔ جو جمہوری کہلائے جا سکتے ہیں۔کسی ایک ملک کے نظام کو دوسرے میں منتقل کرنے سے کام نہیں چلتا۔ خصوصاً اگر اس میں بیرونی عنصر زیادہ ہو۔جیسا کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ثابت ہو چکا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ایک چھوٹے مراعات یافتہ طبقے کو حکومت کا رواج ڈال دیا ہے۔ جو کبھی بھی جمہوری نہیں ہوئی۔بعض اوقات یہ آمرانہ ہوتی ہے اور یہ سب جمہوریت کے لبادے میں قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ عوام کے نام پر حکومت کرتے ہیں۔ان تھوڑے سے خواص میں بڑے بڑے جاگیردار‘ امیر صنعت کار، قبائلی جنگجو سردار اور ہر قماش کے سیاستدان شامل ہیں ،پاکستان میں ہمیں ایک جاگیر دارانہ اور سردارانہ معاشرہ ملا ہے۔پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم کتنی بُری طرح حقیقی جمہوریت کے قیام میں ناکام رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے گزشتہ روز جو باتیں کہی ہیں، وہ ہم سب کے لئے آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ فوج کے نئے سربراہ اپنے پیش رو کے عزم اور ارادے کو کس طرح عملی جامع پہناتے ہیں۔نامزد آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے کور کمانڈ کی۔آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہے۔انھوںنے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے تربیت حاصل کی۔ پاک فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔وہ 2014ء میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا تعینات ہوئے۔وہ 2017ء میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہیں اکتوبر 2018ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا۔وہ جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہوئے۔ وہ اکتوبر 2021ء سے جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔جنرل عاصم منیر حافظ قرآن ہیں اور انہیں دوران تربیت اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا ہے۔ جوائنٹ چیفس لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز 8 سندھ رجمنٹ سے کیا اور وہ پی ایم اے سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شامل ہیں۔ساحر شمشاد مرزا نے بطورلیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈیئراور میجرجنرل ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں خدمات انجام دیں۔ساحر شمشاد اس وقت پاک فوج کی ٹین کور راولپنڈی کے کور کمانڈر ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ٹی ٹی پی اور دیگردہشتگرد گروپوں کے خلاف آپریشنز سپروائز کیے اور وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو پاکستان کی رنگ برنگی سیاسی تاریخ میں مارشل لاء اور جمہوریت کے مابین صحیح جمہوریت کا راستہ مختلف صورتوں میں مشکل رہا ہے۔ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں جن میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے دراصل کسی شخص یا خاندان کی پارٹیاں ہیں۔ اگر اس فرد کو ہٹا دیں تو پارٹی ختم ہو جائے گی، پارٹی کا سربراہ ہی پارٹی ہے۔وہ پارٹی کے عہدوںپر جس کو چاہتا ہے تقررکرتا ہے۔ آپ پاکستان کی پوری تاریخ پر نظر ڈالیں سویلین اور فوجی حکومت اور سویلین حکومتوں میں فوج کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔میں سمجھتا ہوں ہر ڈکٹیٹر کی طرح پاکستان میں 4بار مارشل لاء لگانے اور کم و بیش 30سال تک ملک پر حکومت کرنے والے فوجی حکمرانوں نے ابراہم لنکن کے ان فرمودات کو زیر نظر رکھا تھا جس میں ابراہم لنکن کہتے ہیں۔ ’’میری آئین کو محفوظ رکھنے کی قسم نے مجھ پر ذمہ داری عائد کی کہ میں قوم اور حکومت کا جس کا بنیادی قانون آئین ہے ہر قابل استعمال وسیلے کے ذریعے تحفظ کروں۔کیا یہ ممکن ہے کہ ملک ختم ہو جائے اور آئین سلامت رہے۔بنیادی قانون کے تحت اصولاً زندگی اور اعضاء کی حفاظت ہونی چاہیے لیکن اکثر زندگی بچانے کے لئے کسی عضو کا جدا کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن کبھی عضو کو بچانے کے لئے زندگی قربان نہیں کی جاتی میں نے سوچا ممکن ہے کہ ایسے اقدامات جو غالباً غیر آئینی ہوں لیکن اگر ان کے ذریعے ملک محفوظ ہوتا ہے تو وہی اقدامات آئین کی سلامتی کے لئے ضروری ہو جائیں گے صحیح یا غلط میں نے اس اصول کو اپنایا اور اس کا اعتراف کرتا ہوں۔‘‘ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ابتدائی دنوں کے بیانات ‘عزائم اور خیالات پر ایک نظر ڈال لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا جیسے وہ کہہ رہے ہوں۔اگر ملک جاتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ آئین بھی جاتا ہے اور اگر آئین جاتا ہے تو ملک تو پھر بھی قائم رہے گا اور آپ دیکھ لیں کہ جب یہ رخصت ہوئے تو یہ کہتے سنے گئے کہ انہوں نے نہ صرف ملک بچایا اور یہ بھی کہ انہوں نے ملک کے آئین کو بھی کسی نہ کسی طوور پر زندہ رکھا۔وہ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ کوئی بھی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ وہ درست کہتے تھے یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک و قوم کے لئے جمہوریت کو چلنا چاہیے اور ایک ایسا نظام بنانا اور نافذ کرنا چاہیے جس کے پاکستان کے عوام شدید خواہش مند ہیں۔