عمران خان نے شاید آنے والے دنوں کی لڑائی کے لئے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں۔شاید انہوں نے طے کر لیا ہے کہ نہ کھیلیں گے نہ کسی کو کھیلنے دیں گے۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی گیم شروع ہو گئی ہے۔اس لئے وہ اپنے ترکش سے تیروں کی بوجھاڑ کرتے جا رہے ہیں۔کبھی کبھی وہ منڈلاتے خطرات کو محسوس کر کے سہم جاتے ہیں۔دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں لیکن آصف علی زرداری کی طرح ان میں ’’صبر‘‘ اور ’’تحمل‘‘ جیسی خوبی بہت کم ہے اور وہ نہ نواز شریف کی طرح پتے سینے سے لگا کر کھیلتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ جو طاقتیں کسی بھی لیڈر کے لئے اقتدار کا راستہ صاف کرتی ہیں اور جنہوں نے انہیں اپنا فیورٹ بنا کر اقتدار کی مسند پر لا بٹھایا تھا۔ اب وہ ان سے ناراض ہیں، اس خفگی کی وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں لیکن خان کا خیال ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔اس غیر معمولی خود اعتمادی کا شکار ہو کر انہوں نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے ایک ایسا راستہ جس میں بارودی سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ خان اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں، وزیر آباد کے واقعہ کے بعد اب وہ زمان پارک کے آرام دہ محفوظ گھر میں گزشتہ کئی روز سے گولیوں سے گھائل پلاسٹر میں قید ٹانگ کے زخموں کے مندمل ہونے کے منتظر ہیں، خان کے خلاف اتحادی حکومت بھی پوری طرح صف آرا دکھائی دیتی ہے، اسے بھی اپنی محدودات اور مشکلات کا اندازہ ہے۔اسے یہ بھی احساس ہے کہ مشکل فیصلوں اور ہوشربا مہنگائی نے اس کے لئے سیاسی اور انتخابی میدان میں بہت سی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔وزیر اعظم کے سامنے اس وقت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کی اپنی تاریخ ہے، جب ملک آزاد ہوا تو پاکستانی افواج کے پہلے کمانڈر انچیف سرڈگلس گریسی تھے وہ شاید حالات وقت اور ضرورت کا تقاضا تھا، ڈگلس گریسی کے متعلق ایک ممتاز انگلش دفاعی مبصر ایلون شیفرڈ نے لکھا تھا کہ وہ ایک باصلاحیت فوجی آفیسر ضرور تھا لیکن خودسر اور تکبر میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ تاج برطانیہ سے اپنی قربت کا دعویٰ کرتا تھا۔فوجی حکمت عملی کا ماہر تھا۔اس نے دوسری جنگ عظیم میں جنگ لڑنے کے سارے گر سیکھ لئے تھے۔اس نے اس عظیم معرکے کے مختلف محاذوں پر کامیابیوں اور ناکامیوں کا مزہ چکھا ہوا تھا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نئی مملکت کے معمار محمد علی جناح ایک انتہائی زیرک‘ اور ذہین انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کہے کو ایسا حکم مانتے ہیں ،جس کی تعمیل ہونی چاہیے پھر آزادی کی تیسری سالگرہ کے بعد 15ستمبر 1950ء کو پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جانب سے اعلان ہوا کہ انہوں نے میجر جنرل ایوب خان کو پاکستان کی افواج کا پہلا مسلمان کمانڈر انچیف مقرر کر دیا ہے ،اعلامیہ میں بتایا کہ ایوب خاں اپریل 1951ء میں سرڈگلیس گریسی سے چارج لے لیں گے۔ایوب خان کو 1948ء میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، جس وقت ایوب خان کی نامزدگی کا اعلان ہوا ،وہ نیشنل امپیریل کالج لندن میں زیر تعلیم تھے۔15ستمبر 1950ء کو نامزد کمانڈر انچیف ایوب خان کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر ڈپٹی کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا اور 17جنوری 1951کو ایوب خان پہلے مسلمان کمانڈر انچیف مقرر ہوئے ایوب خان مہم جو انسان تھے پروفیشنل سولجر تھے لیکن چاروں طرف دیکھنے والے اور اپنے غلبے کے متمنی شخص تھے، انہوں نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں خود کو سولجر سے زیادہ ایک مدبر کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اقتدار کی کنجیاں اپنی جیب میں رکھنے کی خواہش ان کا دیرینہ خواب تھا، انہیں معلوم تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے راستے کی رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جاتا ہے اور اپنے طاقتور حریفوں کی کمزوریوں کو کس طرح ایکسپلائٹ کیا جا سکتا ہے۔ان کا یہ خواب اس وقت پورا ہو گیا، جب آزادی کے ابتدائی دور میں لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد ڈگمگاتی حکومتوں کے بعد اسکندر مرزا نے صدر کی حیثیت سے اپنی اتھارٹی کو منوانے کی کوشش میں 7اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور اس کے نتیجے میں جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے طاقتور ترین عہدے پر متمکن ہو گئے اور اس کے 20دن بعد 27اکتوبر 1958ء کی شب اس وقت صدر اسکندر مرزا کی چھٹی ہو گئی۔ ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھالا تو صورتحال میں استحکام پیدا ہوا لیکن ظاہر ہے سیاسی جمہوری عمل کی نشو و نما کو دھچکا لگا۔ایوب خان نے اپنے قابل اعتماد ساتھی جنرل موسیٰ کو فوج کا کمانڈر انچیف بنانے کا فیصلہ کیا۔جنرل موسیٰ فوج میں سپاہی سے جنرل کے عہدے تک پہنچے تھے یہ ایک غیر معمولی مثال تھی۔جنرل موسیٰ نے کمان سنبھالی تو فوج کو مضبوط کرنے اور دفاعی صلاحیت میں استحکام پیدا کرنے کا مشن تھا ۔انہیں اس دوران 1965ء کی پاک بھارت جنگ جیسے چیلنج سے نمٹنا پڑا 17روزہ اس جنگ میں قوم کے اتحاد ‘جوش و ولولے اور فوج کی درخشاں قربانیوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔جنرل موسیٰ کے بعد کمان کی تبدیلی کا مرحلہ آیا۔تو بیماری اور سیاسی صورتحال کے سبب ایوب خان کی گرفت اقتدار پر کمزور پڑ گئی تھی۔ان کے پاس متعدد آپشنز موجود تھے لیکن قرعہ جنرل یحییٰ کے نام نکلا جنرل یحییٰ اپنی متعدد بشری کمزوریوں کے سبب ایک متنازعہ چوائس تھے۔ اور پھر مارچ 1969ء میں سیای ہیجانی کیفیت اور ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے نتیجے میں صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل یحییٰ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا، ایک شام جب وہ اپنے دو سینئر کمانڈر کے ساتھ ایوان صدر کے اس دفتر میں داخل ہوئے جہاں فیلڈ مارشل اپنے کام میں مصروف تھے ایوب خاں نے یحییٰ خان کو دیکھتے ہی کہا ۔یحییٰ میں کل قوم سے خطاب کر کے صدارت سے رخصت ہو رہا ہوں، یحییٰ خان کے ایڑھی بجا کر سیلیوٹ کیا اور اس کے ساتھ ہی ایوب خان کا طویل اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا۔(جاری ہے)