یہ تحصیل کوٹ ادو کی بستی درکھان والا سکول کی تیسری جماعت کی بچی رابعہ اور اس کے غریب گھرانے کی ایمانداری کی آنکھیں نم کر دینے والی کہانی ہے۔ اس سکولکی میڈم محترمہ شبانہ فیض کا کردار بھی بہت اہم ہے۔میری محترمہ شبانہ سے بات ہوئی اور آپ یقین کریں میری صبح خوشگوار ہوگئی میں بنیادی طور پر جذباتی روح ہوں زیادہ شکر ، خوشی اور حیرانی میں بھی میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔کہانی انہی اسکول کیہیڈ مسڑس محترمہ شبانہ فیض کی زبانی سنیے۔ کچھ روز پیشتر ان کے پاس بستی کی ایک خاتون آئی وہ کھیتوں میں کام کرنے والی ایک غریب خاتون دکھائی دے رہی تھی اس پریشان حال نے کہا کہ راستے میں جاتے جاتے میرے لفافے میں سے سونے کا جھمکا گر گیا ہے آپ کے اسکول کے بچے اسی راستے پر آتے جاتے ہیں مہربانی کرکے آپ اپنے اسکول کے تمام بچوں سے یہ پوچھیں۔سکول کی ہیڈ مسٹریس مصروفیت کا بہانہ بنا کر اس عورت کو واپس بھیج سکتی تھیں کہ بی بی یہاں کوئی جھمکا میرے اسکول میں کسی بچے کو نہیں ملا اور ہمارا وقت ضائع نہ کرو۔مگر اسکول کی ہیڈ شبانہ فیض انسانیت اور انسانی ہمدردی سے سے لبریز شخصیت تھیں۔وہ اس خاتون غریب خاتون کو لے سکول کی ایک ایک کلاس میں گئیں۔وہاں سب بچوں سے پوچھا کہ کیا کسی بچے نے راستے میں گرا ہوا سونے کا جھمکا دیکھا ہے۔اچانک تیسریجماعت کی ایک طالبہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ میڈم مجھے یہ جھمکا ملا ہے اور میرے گھر پر موجود ہے۔میڈم نے بچی سے کہا کہ آپ ابھی گھر سے جا کر یہ جھمکا لے کر آؤ بچیکا گھر اسکول کے قریب ہی تھا۔یہاں پہنچ کر میڈم شبانہ فیض کہنے لگیں کہ میرے دل میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ بچی نے تو سچ بول دیا لیکن اس کے گھر والے ہی جھمکا نہ دیں اور کہہ دیں کہ آپ نے کیسے بچی کی بات پر یقین کر لیا تو ہمارے کہنے کو کچھ نہیں ہوگا۔ وہ کہتی ہیں میں اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ بچی بھاگتے بھاگتے گھر سے واپس اسکول پہنچ گئی۔ اس نے بندمٹھی کھولی اور سونے کا جھمکا اس کی مٹھی میں جگمگاریا تھا۔ وہ غریب عورت اپنا گم شدہ اثاثہ دیکھ کر اتنی جذباتی ہوئی کہ آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہنے لگے۔ یہ بچی درکھانوالا بستی کے مزدور قاسم کی بیٹی ہے۔ قاسم کے دونوں پاؤں مڑے ہوئے ہیں وہ چوکیداری کرتا ہے۔بچی کی ماں بھی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔قربان جاؤں اس غربت زدہ گھرانے کی تربیت پر جنہوں نے اپنی بیٹی کو سچائی اور دیانت کا درس دیا۔اور سلام ہے میرے وطن کی قابل احترام استاد ہیڈ مسٹرس محترمہ شبانہ فیض کو جو ایک دور دراز بستی کے اسکول میں آنے والے بچوں کے کردار کو چمکانے اور روشن بنانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ روز انہ اسمبلی میں اخلاقیات پر بات ہوتی ہے ہیڈ مسٹریس شبانہ فیض ہر روز اسمبلی میں اخلاقی اقدار پر مختصر گفتگو کرتی ہیں۔ کلام اقبال پڑھا جاتا ہے ۔ یوں اسکول میں روزانہ کلاسوں کا باقاعدہ کا آغاز ہونے سے پہلے بچوں کو اعلی انسانی اقدار سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ یقیں جانیں جب ہیڈمسٹرس شبانہ فیض مجھ سے بات کر رہی تھی تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور میں واقعی جذباتی ہو گئی تھی کہ میرے وطن میں ایسے استاد موجود ہیں جو صلے اور ستائش کی تمنا کیے قوم کے بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کا فریضہ بھی اس جذبے سے سرانجام دے رہے ہیں کہ میں اپنی دھرتی کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں۔ غریب بچی کے دیانت داری اور سچائی کی حوصلہ افزائی کے لئے ہیڈ سکول ہیڈ مسٹریس نے اگلے ہی روز اسمبلی میں پورے سکول کے سامنے بچی کو اپنی جیب سے کیش انعام دیا ۔سالانہ امتحان کے لیے منگوائے گئے انعامات میں سے ایک میڈل اور ٹرافی بچی کی حوصلہ افزائی کے لئے پیش کی۔ پورے سکول نے تالیاں بجائیں اور انہوں نے سکول سے کہا کہ بچو! آپ ہیروز کی کہانیاں پڑھتے ہیں نا تو یہ دیکھیں آپ کی ایک اسکول فیلو اصل ہیرو کے روپ میں آپ کے سامنے ہے۔ ہم سچائی اور دیانت کو اپنا کر اس سوسائٹی کے اصل ہیرو بن سکتے ہیں۔ ہیرو وہی ہے جس کا کردار اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہو۔ میں اس کالم کی وساطت سے وستی درکھان والا اسکول کی ہیڈ مسٹریس محترمہ شبانہ فیض کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں ۔خدا کرے کہ میرے وطن کے تمام سکولوں کے اساتذہ تعلیم کے ساتھ تربیت کے فریضے کو بھی اس طرح اہم سمجھیں۔جس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی کرپشن ہو ، جہاں سالانہ اربوں روپے کے فنڈز وائٹ کالر اشرفیہ کی بدیانتی کی بھینٹ چڑھتے ہوں، جس ملک کے حکمران سیلاب فنڈ کے لیے آئے ہوئے قیمتی ہار گھر لے جائیں۔جس ملک کے زرداریوں، نواز شریفوں پر اربوں روپے کے کرپشن کے الزامات ہوں ،ان کی جائیدادیں دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلی ہوں۔ مگر ہوس ختم ہونے میں نہ آرہی ہو۔جس ملک کے ایک ایک شعبے کو کرپشن اور بد دیانتی کا گھن لگ چکا ہو ، اس ملک کے ایک غریب مزدور گھرانے کی دیانت کا یہ عمل چونکا دینے والا ہے۔ معذوری ، غربت ، خستہ حالی اور ہوشربا مہنگائی کے دور میں مزدور گھرانے کا دل سونے کے اس جھمکے پر بے ایمان بھی ہوجاتا تو بات سمجھ آتی تھی لیکن معذوری، غربت ،خستہ حالی کے ستم سہتے ہوئے دیانت اور سچائی کا یہ عالم اللہ اللہ!حیران ہوں کہ گدلے پانیوں میں یہ سچائی اور دیانت کا پھول کیسے کھلا ۔ کرپشن کے اس خرابے میں وستی درکھان والا کے مزدور کی بیٹی رابعہ قاسم اور اس کے غربت زدہ خاندان کی سچائی اور دیانت نے اہل پاکستان کے سر فخر سے بلند کردئیے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ دیانت اور سچائی کی اس غیر معمولی کہانی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈسکس کیا جائے۔شاید کہ قوم کے رہنماؤں کو کچھ حیا آئے۔