بازار میں خبر گرم ہے کہ چین نے پاکستان سے کْتوں اور کھوتو ں کو درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک زبردست حکومتی فیصلہ ہے جس کی بدولت چین کو تازہ دم کتے اور ہٹے کٹے پاکستانی کھوتے میسر آئیں گے جبکہ ہماری حکومت کو کتوں اور کھوتوں کو باہر بھیج کر زرِ مبادلہ کی کثیر رقم ملے گی۔ ویسے بھی ہم پچھلے پچھتر سال سے جابجا پائے جانے والے کتوں اور کھوتوں کی بہتات سے تنگ آچکے ہیں۔ یقین جانئے کی ایک کلومیٹر کے ریڈیس میں ایک عدد کتا یا کھوتا ضرور نظر آتا ہے۔ دیہاتوں میں کتوں سے گھروں کی رکھوالی کا کام لیا جاتا ہے جبکہ کھوتوں سے اینٹیں اْٹھوانے سمیت اْن کے پیچھے ریڑھی باندھ کر اْنہیں بطور ذرائع آمدو رفت بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کتوں اور کھوتوں سے اور بھی کئی طرح کے کام لئے جاتے ہیں مثلاََ کھوتے پر سواری کی جاتی ہے، کھوتے پر سامان لادا جاتا ہے، کھوتے کو ریڑھی بان سبزیوں اور پھل فروش اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کتوں سے بھی رکھوالی سے لے کر بچوں کو کھلانے، دوسرو ںپر رعب ڈالنے کے لئے پارکوں تک میں کتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ شہروں میں کتوں اور کھوتوں کی تعداد دیہاتوں میں پائے جانے والے کتوں اور کھوتوں کی تعداد کم و بیش ایک جیسی ہی ہوگی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دیہاتوں میں کسی فصل کنارے، نلکے، ٹیوب ویل یاکھلے میدان میں جبکہ شہروں میں گلی کوچے میں کوئی کتا نظر آہی جاتا ہے۔ اِسی طرح کسی سرکاری دفتر کے باہر اور کبھی کبھار تو اندر بھی کوئی کھوتا نظر آجاتا ہے۔ دفتر کے باہر والے کھوتے کو تو لوگ غلیظ جان کر دھتکار دیتے ہیں جبکہ دفتر کے اندر والے کھوتے کو پیار بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ حیران کن طور پر وہ کھوتا جتنے بڑے دفتر میں گھستا جائے گا، اْس کی تکریم میں اْتنا زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کی بھی کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ خیر یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب کتوں اور کھوتوں سے پیار کیا جانے لگا ہے۔ دیہاتوں میں پائے جانے والے کتوں کو اکثر اوقات زنجیر سے باندھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ باؤلا ہوکر مالک، ہمسائیوں اور مہمانوں کو کاٹنے کو نہ چڑھ دوڑے۔ زنجیر سے بندھے کتے کو صر ف رات کے وقت کھلا چھوڑا جاتا ہے تاکہ وہ ہمارے گھروں کی رکھوالی کرسکے جبکہ کھوتوں سے دن کے اوقات ِ کار میں کام لیا جاتا ہے اور رات کے وقت اْنہیں آرام دیا جاتاہے۔ اس لئے رکھوالی کرنے والے کتوں اور معیشت چلانے والے کھوتوں سے پیار کرنا بنتا بھی ہے۔ ہمارے ہاں کتوں اور کھوتوں کی کئی اقسام ہیں۔ اس معاملے میں جانوروں کے ماہرین نے کھوتوں کی اقسام تو زیادہ نہیں بتائیں مگر کتوں کے متعلق بہت کچھ کہاگیا اور لکھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کئی طرح کے کتے پائے جاتے ہیں۔ کھیر کھانے والے کتے، لسی چاٹنے والے، بھونکنے والے، کاٹنے والے، چیر نے پھاڑنے والے، رکھوالی کرنے والے،بیڈ پر مالکوں کے ساتھ سونے والے، گاڑیوں کے ساتھ بھاگنے والے، سونگھنے والے،اور راہ گیروں پر بھونکنے والے کتے وغیرہ۔ اِن سبھی اقسام میں ’کھانے والے کتوں‘ کی قدرسبھی میں مشترک پائی جاتی ہے۔ اِس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ اس قدرامور سرانجام دینے کے بعد اگر کتے اور کھوتے کچھ کھالیتے ہیں تو اِس میں برا نہیں منانا چاہئے۔بلکہ ہمیں تو اْلٹا برا چین کی اس مبینہ طلب پہ منانا چاہے کہ وہ ہمارے کار آمد کتوں اور کھوتوں کو درآمد کرنا چاہتا ہے۔ ہرکوئی کھارہا ہے مگر ملک پھر بھی چل رہا ہے۔ حکمرانوں کی سنجیدگی کا عالم دیکھیں کہ قرض لے کر بھی کھاتے ہیں مگر ملک چل رہا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں کھانے اور پکوان کی دوکانوں پر لگا رش اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ’کھاؤ‘ قوم ہیں۔ جس طرح قوم کھاؤ ہے بالکل حکمران بھی کھاؤثابت ہوئے ہیں۔ وہ قرض لے کر بھی قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ قرض مل گیا ہے اب دبا کر کھاؤ۔ہم پھر کھانے پہ لگ جاتے ہیں۔ گاؤں کو نمبر دار بھی کھا رہا ہے، گھر کا چوکیدار بھی کھا رہا ہے، گھر کا مالک بھی کھا رہاہے، سرکاری دفاتر کے باہر بیٹھے چوکیدار بھی کھارہے ہیں، دفاتر کے اندر بیٹھے بڑے بابو بھی کھارہے ہیں۔ سبھی کھارہے ہیں اور دبا کر کھارہے ہیں۔ ہم واقعی خوش خوراک ثابت ہوئے ہیں۔اب ہمسایہ ملک چین کی کتوں اور کھوتوں کی تجارت پر ہمیں تھوڑی پریشانی ضرور درپیش ہے کہ کام کرنے والے کھوتے چین نے خرید لئے تو ہم کیا کریں گے؟کیونکہ اِن کھوتوں کو تیار کرنے میں ہماری کئی نسلیں لگی ہیں۔ پیدا ہونے سے لے کر اِن کی افزائش ِ نسل اور اِن کی نسل پروان چڑھانے کے لئے پاکستانی قوم خصوصاََ کسانوں نے کئی قربانیاں دی ہیں۔ مثلاََ کھوتوں نے لاکھوں ایکڑ پر محیط فصلیں اجاڑ دی ہیں۔کسانوں نے تنگ آکر فصلیں کاشت کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ جب کسانوں کی فصل تیار ہوتی ہے تو کھوتوں کو جھرمٹ کہیں سے اْمڈ آتا ہے اور فصلوں کو تباہ کردیتا ہے۔ بعد ازاں کسانوں کو تباہ حال فصلیں اونے پونے داموں بیچنا پڑتی ہیں۔ کھوتے پر جتنا احسان کرلیں وہ دولتی مارنے سے نہیں چوکتا۔ اس لئے چین کی اِس نئی طلب پر جہاں ہمارا دل خوشی سے باغ باغ ہے کہ چلو پچھتر سال بعد ہی سہی کم از کم پاکستانی قوم کی جان ان کتوں اور کھوتوں سے چھوٹ جائے گی۔ وہیں پر ہلکی سی پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ اگر سارے کتے اور کھوتے بک گئے تو ہمارا نظام ِ زندگی کیسے چلے گا؟ کیونکہ ملک چلانے کے لئے ہمیں کچھ فرمانبردار کتوں اورکان لٹکائے کھوتوں کی بہرحال ضرور ت ہے۔