لو وہ آ گئے جن کا انتظار تھا۔ایک بڑا ہجوم ان کا منتظر تھا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کے پروٹوکول کی جھلکیاں بتا رہی تھیں کہ اشاروں میں نہیں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ کون آ رہا ہے۔ مینار پاکستان کے تاریخی میدان میں کھڑے ہو کر اپنے پرجوش حمائتیوں کے سامنے جو کچھ کہا وہ اس طرف واضح اشارہ تھا کہ محدودات کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں وہی کچھ کہنا ہے جو بتانے والے سننا چاہتے ہیں کہ حالات کی نزاکت یہ ہے کہ چنگاری بھڑکانے کے بجائے تپتے ہوئے سیاسی میدان میں پانی کے چھینٹے دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ہاں آزمائش کے دور میں اپنی زندگی کے ٹریجک لمحات کا تذکرہ کر کے انہوں نے اپنے حامیوں کو یہ احساس دلایا کہ ہم وطنوں کے لئے بغیر سائبان کے چلچلاتی دھوپ میں کھڑے رہ کر انہوں نے کیسا کیسا کڑا وقت صبر و شکر سے گزارا۔وہ چھ سال پہلے جب یہاں لندن سے آئے تھے تو وہ لوگ جو انہیں گرفتار کرنے کے لئے صف آراء تھے وہی انہیں 21اکتوبر کی شام ایڑی بجا کر سلیوٹ کر رہے تھے وقت کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔یہ ہم سب نے دیکھا۔ میں متعدد بار نواز شریف سے ملا ہوں۔ وہ جب بھی ملتے ہیں گرمجوشی سے ملتے ہیں۔ وہ آپ کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ پھر وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کرتے وہی ہیں جو ان کے من میں آتا ہے۔ انہوں نے غالب کا ایک بہت ہی معنی خیز شعر بھی پڑھ ڈالا۔ ضروری نہیں کہ اس کی تشریح بھی کی جائے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کئے جانے والے ان اقدامات اور منصوبوں کا تذکرہ کیا جو وہ انجام دے چکے ہیں لیکن انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ان کا کیا پلان اور روڈ میپ ہے جس کے ذریعے وہ مہنگائی اور بے روزگاری ختم کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔تمام تر اشاروں کے باوجود کہ آنے والے مہینوں میں کیا ہونے والا ہے ابھی کہانی کا اسکرپٹ مکمل نہیں ہوا ہے۔ چند صفحات باقی ہیں۔ایک طرف چلہ کاٹ کر آنے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو ہار مانتے لرزتے کانپتے مایوس اور شرمندہ چہروں کے ساتھ نمودار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی جمود میں ارتعاش پیدا کرتے ہوئے اور تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے 72سالہ نواز شریف امید بن کر اس امید پر لوٹ آئے ہیں کہ قرعہ فال ان کے نام کھلنے والا ہے۔ ہمارے بہت سے دوست بشمول جناب سہیل وڑائچ دل میں کروٹ لیتی ہوئی اس خوش آئند آرزو کے ساتھ کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر کم سے کم ان چند نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں جس سے ایک طرف سیاسی ٹمپریچر میں کمی واقع ہو،جیو اور جینے کا احساس جاگزیں ہو اور ملکی معیشت کی بحالی کے لئے ایک متفقہ روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ یہ حقیقتاً ایک ایسا خواب اور خواہش ہے جو آگے بڑھنے کے لئے اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر ہچکولے کھانے کے بجائے ایک روشن منزل کی طرف لے جانے والی شاہراہ پر گامزن کر سکے ۔ میں ان تمام خواہشات کا اظہار 2018ء میں عمران خان کے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونے سے لے کر آج تک کرتا رہا ہوں۔ جب جناب عمران خان کا دور اقتدار تھا اس وقت بھی میرا استدلال یہی تھا کہ اقتدار اور اختیار کے پل صراط پر احتیاط سے چلیں۔ جب ایک بار وہ محترم حفیظ اللہ نیازی کا تذکرہ برادر یوسف کے حوالے سے کرنے لگے تو میں نے ان سے عرض کی تھی کہ خاں صاحب آپ صرف سورہ یوسف کا مطالعہ کر لیں آپ اس پر عمل کر لیں آپ کا سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ آج میں پاکستان کے تمام با اختیار اکابرین اور سیاست کاروں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صرف سورہ یوسف پڑھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کے کردار سے سبق حاصل کر لیں۔ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ آقائے نامدار ﷺ کی ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں آمد اور پھر عملی کردار پر نظر ڈالیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا آگے بڑھنے کا کیا راستہ ہے۔ یہ ریاضی کا کوئی مشکل سوال نہیں۔اس کا جواب ہم سب کے سامنے لکھا ہوا ہے آج اڈیالہ کے قید خانے کے ایک چھوٹے سے سیل میں بیٹھے عمران خاں ضرور سوچتے ہوں گے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا جو نہ کہا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے پر خطر جمناسٹ کی طرح تنے ہوئے رسے پر جس طرح آگے بڑھنے کی کوشش کی وہ انہیں مہنگی پڑی ۔ میں نے ان سے عرض کی تھی کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آپ عوامی مقبولیت اور حمایت کو سمیٹے جس کیفیت سے گزر رہے ہیں وہ ان سے کوئی ایسی غلطی کرا سکتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہو گا۔ میں نے تو انہیں یہاں تک کہا تھا کہ بحیثیت کرکٹر اور سوشل ریفارمر آپ کا جو امیج بن گیا ہے سیاست میں آ کر وہ خطرے میں پڑ جائے گا لیکن اگر آپ نے اس میدان میں قدم رکھ ہی دیا ہے تو پھر بہت احتیاط اور سنبھل کر چلیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست پل صراط پر چلنے یا لٹکتے رہنے کا نام ہے۔ جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو میرا خیال تھا کہ یہ عمران خان کی خوش بختی ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین نے انہیں ایک ایسی لائف لائن فراہم کر دی ہے بصورت دیگر اگر وہ اپنا دور حکومت مکمل کرتے تو ان کے لئے 2023ء کے انتخابات میں کامیابی کے امکانات معدوم ہو جاتے۔ دنیائے سیاست میں ایسی درجنوں نہیں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا ۔سرونسٹن چرچل ہارا پھر جیت گیا۔آپ ڈیگال کی مثال لیں، بددل اور مایوس ہو کر وہ گھر جا بیٹھا ۔قوم اسے کندھوں پر بٹھا کر دوبارہ اقتدار تک لے آئی۔مہاتیر محمد 90سال کی عمر میں اپنی قوم کی ضرورت بن گیا۔ عمران خان سوچ رہے ہوں گے کہ ان کا وہ پبلسٹی ٹولہ جو انہیں یہاں تک لے آیا وہ اب خود تائب ہو گیا یا غائب ہو گیا اور آج یہ صورتحال ہے کہ وہ ہاتھ پیر بندھوا کر اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں۔ عمران خان کو سب سے پہلے اپنی پہاڑی جیسی انا سے نیچے اترنا ہو گا پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا ہو گا۔ اپنی غلطیوں اور حماقتوں کا ادراک کئے بغیر آپ آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے، اپنے جانے مانے غلط فیصلوں میں خود کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش سے مزید مشکلات کو بڑھائیں گے۔ جیسے کشتی اور مچھیرے کہاں کہاں نہیں جاتے لیکن لوٹ کر اپنے آشیانے کا رخ کرتے ہیں۔ آپ بھی ذرا پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ آگے بہت سے خطرناک موڑ صاف نظر آ رہے ہیں۔ نیچے کھائیاں بھی ہیں اور گھاٹیاں بھی ۔کیا آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ آپ کی مقبول جماعت دیوار سے لگ چکی ہے۔ آپ نے خود اپنی جیت کو ہار میں بدل دیا ہے ۔یاد رکھیں سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ تاریخ ہر لمحے ہمیں سبق سکھاتی ہے۔ عمران بھی دو قوم پیچھے ہٹ کر اپنی غلطی تسلیم کر لیں تو ان سے بھی پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا۔