روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا ہے باوجود اس کے کہ پیوٹن نے یورپی طاقتوں ، خاص طور پر جرمنی اور فرانس، کو ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ مقصد دو نئی ریاستوں ، جنہیں روسنے تسلیم کیا ہے، کی حفاظت اور ایسی حکومت کو اقتدار میں لانا ہے جو اپنی بقا واشنگٹن نہیں بلکہ ماسکو میں ڈھونڈے۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے روس کی یوکرائن سرحد پر فوجوں کے اجتماع کے بعد سے ہی واویلاشروع کردیا تھا کہ پیوٹن پر یقین نہ کیا جائے اور یہ کہ وہ یوکرائن میں نیٹو ممبرشپ کی خواہاں حکومت کو ہٹانے کے لیے جارحیت کا راستہ ضرور اختیار کریگا۔ لیکن جرمنی اور فرانس کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔وجہ یہ تھی کہ یورپ روس کے تیل اور گیس کی مارکیٹ ہے اور مستقبل میں اس حوالے سے تعاون کی منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ جنگ کی صورت میں سب چوپٹ ہوجاتا۔ اس کے علاوہ اقتصادی پابندیاں اور عالمی بینکاری نظام سے روس کا انخلا اس کی معیشت کے لیے بڑی تباہی کا سبب بنتا۔ یوں کوئی وجہ نہیں تھی کہ روس ایک جمہوری ملک پر حملہ کرکے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرتا جبکہ اس کے آٹھ سال پہلے یوکرائن کے علاقے،کریمیا، پر کے گئے قبضے کی تلخیاں بھی ابھی تک زندہ تھیں۔ جہاں تک امریکی شور و غل کا تعلق تھا، تو فرانس اور جرمنی اس کی وجوہات خوب جانتے تھے کہ اسے یورپی یونین کا وجود اور اس کے خواب پسند نہیں تھے۔ امریکہ کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ کیسے یورپ کی ریاستیں اپنی آزادی قائم رکھتے ہوئے مشترکہ خارجہ پالیسی اور سنگل کرنسی کے اصول پر عمل کر سکتی ہیں۔ اس سے پہلے کا ماڈل وفاق کا تھا جو امریکہ سمیت بہت سی ریاستیں اپنائے ہوئے تھیں۔ سوویت یونین کا نظام بھی یہی تھا۔ امریکہ کے لیے جو اچنبھے کی بات ہے وہ اقتدار اعلیٰ کا تصور ہے جو اس کے نزدیک ناقابلِ تقسیم ہے۔ یورپ نے ایک نئی بدعت ایجاد کر لی ہے کہ بین الاقوامی ادارے بنائو اور انہیں وہ کام سونپ دو جو صرف ریاستوں کے لیے مخصوص ہیں جیساکہ کرنسی اور خارجہ پالیسی۔ یورپ کا اگلا منصوبہ مشترکہ دفاع کا بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے نیٹو کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ امریکہ کو یورپ سے دلچسپی ہے تو اس حد تک کہ وہ روس کی توسیع پسندی کے خلاف دیوار بنا رہے۔ جو بات بائیڈن کہہ رہے تھے کم وبیش وہی بات ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیںکہ یورپ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے اور اپنی فوج کھڑی کرنے کے بجائے، نیٹو کے ہاتھ مضبوط کرے۔ لیکن اب جب روس یوکرائن پر حملہ کرچکا ہے، تو یورپ میں مایوسی اور خوف کی ملی جلی کیفیت کا شکارہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ نے متوقع روس یوکرائن جنگ کا فریق بننے سے معذوری کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی کہ اس نے نیٹو کو مشرقی یورپ، بشمول یوکرائن، تک توسیع نہ دینے کے روسی مطالبات کو رد کرکے سفارتکاری کے راستے بند کردیے تھے جس سے روس کو انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ اگر امریکہ یورپ اپنے پروں تلے رکھنا چاہتا ہے تو ایک جارح روس ا س کے اس مقصد کی تکمیل میں بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار گئیں بھاڑ میں، طاقت کا توازن عالمی سیاست کا غالب قانون ہے۔ ظاہر ہے دونوں عالمی طاقتیں اس کی اہمیت کو خوب سمجھتی ہیں۔یورپ سرد جنگ کے زمانے سے ہی اپنی مرضی سے جینے کے لیے پر تول رہا ہے اور اس کی اس سلسلے میں کی گئی ہر کوشش کے سامنے دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ جنگ سے تباہ حال اس خطے کی طاقتوں نے اتحاد و اتفاق کی طرف سفر شروع کیا تو سب سے پہلی رکاوٹ وارسا پیکٹ اور نیٹو کے درمیان ہونے والاانیس سو پچھتر کا ہیلسنکی معاہدہ تھا، جس کے تحت یورپ کی مشرقی اور مغربی بلاک میں تقسیم کو حقیقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ۔ ایسا بظاہر دو عالمی دھڑوں میں ممکنہ ایٹمی تصادم سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر یہ کوشش یورپی اتحاد کے خواب کو بکھیرنے کی تھی۔ یورپ کی دانشمندی نے راستہ نکال ہی لیا۔ یورپی قیادت نے سوویت یونین سے انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ کیا، جسے معاہدہ کا حصہ بنالیا گیا اور اس کے دور رس اثرات نکلے۔ مشرقی یورپ میں بہت سی تنظیمیں بنیں جنہوں نے سوویت یونین میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کیا۔ ہیلسنکی معاہدے کی یہی شق، سرد جنگ کے خاتمے، جرمنی کے متحد ہونے اور سوویت یونین کے خاتمے کا باعث بنی۔ روس کو گلہ یہی ہے کہ ہیلسنکی معاہدے کی روح پر عمل نہیںکیا گیا۔ یہ روس ہی تھا جس نے سوویت یونین کو توڑا ، وارسا پیکٹ کا تیا پانچہ کیا اور اس کے ممبر ممالک کی آزادی کی راہ ہموار کی۔ یورپ یورپی یونین کے قیام اور مشترکہ کرنسی تک پہنچا لیکن یہ نیٹو سے جان نہ چھڑاسکا۔ اس کے برعکس یہ امریکہ اور برطانیہ کے بہکاوے میں آکر دنیا کو جمہوریت سے مالا مال کرنے کے خواب کا حصہ بن گیا۔ افغانستان کو روند ڈالا گیا اور مشرق وسطٰی طوائف الملوکی کے دہانے پر پہنچ گیا ۔ یورپی یونین نے اگر چہ امریکہ کے ابدی حلیف ، برطانیہ، کو اپنی صفوں سے نکال باہر کیا ہے۔ نیٹو کی جارحیت میں اب اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ روس اب اپنے قدموں پر کھڑا ہو چکا ہے۔ اس نے پچھلی تین دہائیوں میں چین کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اور اسے تکنیکی اور دفاعی طور پر امریکہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ روس یورپ کے دل میں سے نیٹو کا کانٹا نکا لے بغیر اب پیچھے نہیں ہٹے گا۔ امریکہ کو اپنی کوتاہیوں اورکمزوریوں کا ادراک ہے اور روس کے ارادوں کا بھی۔ اسے پتہ ہے کہ روس وہی کریگا جو طاقت کے توازن کا اصول کہتا ہے۔ وہ روس کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ کہ روس مشرقی یورپ میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے جارحیت کا راستہ اختیار کرے تاکہ یورپی یونین آزاد دفاعی پالیسی کی منزل کی طرف نہ بڑھے۔ بظاہر امریکہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہے ۔ لیکن کیا یورپی یونین اپنے خوابوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے ، یوکرائن کے قضیہ کا حل اور یورپ کا اس پر ردعمل اس طرف واضح اشارہ کرے گا۔