چلیں! اچھا ہوا چیف جسٹس ثاقب نثار نے بر وقت نوٹس لے لیا، تھوڑی دیر کر دیتے تو شاید قوم کا نظام انصاف پراعتماد اوریقین اٹھ جاتا،لاہور ہائی کورٹ نے تو طالبہ خدیجہ صدیقی کے جسم پر لگنے والے خنجر کے تئیس زخم دو سال بعد پھر سے ہرے کر دیے تھے دہشت گردی کے اس کیس میں تو شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ خدیجہ پر خنجر چلانے کا واقعہ سرعام ہوا، وہ اپنی چھوٹی بہن کو سکول سے واپس لا رہی تھی ،گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اپنے کلاس فیلو شاہ حسین کے انتقام کا نشانہ بن گئی،خدیجہ کے مجرم نوجوان شاہ حسین بخاری کے والدمحترم تنویر ہاشمی ہمارے پرانے سیاسی دوست رہے ہیں، وہ 2004ء میں جہانگیر بدر کی مہربانی سے پیپلز لائرز فورم کے صدرمنتخب ہوئے تھے، لطیف کھوسہ انہیں اس عہدے پر منتخب کرانے کے مخالف تھے، اسی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی وکیلوں کا گروپ دو حصوں میں بٹ گیا جس کے بعد،لطیف کھوسہ کے بیٹے خرم نے پی ایل ایف کا دوسرا دھڑا بنا لیا۔ کلا س فیلو لڑکی کو خنجر پہ خنجر مارنے والے شاہ حسین کے والد گرامی سید تنویر حسین ہاشمی دنیا میں شان و شوکت سے زندہ رہنے کے سارے گر جانتے ہیں،انہوں نے اپنے فرزند کی سات سال جیل کی سزا پہلے سول کورٹ سے دو سال کم کرائی اور پھر چار دن پہلے ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی عدالت سے بیٹے کو بے گناہ قرار دلوا کر بری کرا لیا،ہم لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج کی نیت پر شک نہیں کرتے لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر عام آدمی اپنے حق میں فیصلہ لینے کیلئے جج کر لیتے ہیں تو پھر کسی سینئراور ہوشیار ایڈووکیٹ کیلئے بیٹے کو باعزت بری کرا لینا کون سی بڑی بات ہے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا ۔چاہے وہ سو لوگوں کا قاتل ہی کیوں نہ ہو ،سو تنویر ہاشمی نے بھی باپ ہونے کا حق ادا کر دیا، لیکن بیٹے کی بریت کے بعد وہ جس شان و شوکت کے ساتھ فاتحانہ انداز میں نیوز چینلزاور اخبارات کے کیمروں کے سامنے عدالت سے باہر نکلے وہ انہیں زیب نہیں دیتا تھا، اچھا تو یہ ہوتااگرایڈووکیٹ صاحب مقدمہ ختم کرانے کے بعد کمرہ عدالت سے گھر تک اپنے بیٹے کو چھتر مارتے ہوئے لے کر جاتے اور سوسائٹی کو پیغام دیتے کہ خدیجہ ان کی بھی بیٹی تھی، لیکن ایسا ہوا نہ ایسا ہونا تھا، کیونکہ ہم درندوں کی اس بستی میں رہ رہے ہیں،جہاں جنگل کا قانون چلتا ہے،جہاں ہر طاقت ور ہر کمزور کو کھا جاتا ہے۔ اس کیس کے انجام نے گھر گھر بیٹھی تمام خدیجاؤں کے سروں سے چادر اتار دی،ہر گھر میں بیٹھی ہر بیٹی کو عدم تحفظ کے خوف میں مبتلا کر دیا،بیٹیاں غیر محفوظ کر دی گئیں ،اور شاہ حسین جیسے بیٹوں کو بڑی عدالت نے لائسنس ٹو کل دیدیا، انہیں قانونی طور پر ان خباثتوں کی اجازت دیدی گئی ، اس فیصلے سے پیغام دیا گیا کہ دوسروں کی بیٹیوں کو بے عزت کرنے والوں،انہیں بے آبرو کرنے والوں پر کوئی حد کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے والی ہر بچی،ہر لڑکی، ہرعورت کے لواحقین کے دلوں میں خوف کے خنجر پیوست کر دیے گئے ، خوف کے پہرے بٹھا دیے گئے ، اس ملک کے قاضی اور منصف ہی بیٹیوں کے پہرے دار نہیں تو پھر کون نگہبان ہے ان کا؟ کیا اس ملک کی پولیس بیٹیوں کی عزتوں کی پاسبان ہو سکتی ہے؟ ہاں ہاں کیا وہ پولیس جو شکایت لے کر جانے والی کسی بھی عورت کو لوٹ کا مال سمجھ لیتی ہے، ہمارے تھانے جو عورتوں کے لئے شجر ممنوع ہیں؟ عمومی طور پر ہمارے تھانے وہ شہروں میں ہوں یا دیہات میں، صرف راؤ انوار اور ایان علی جیسے طاقت وروں کے لئے ہیں، ، عام شہری تو کوئی شکایت لے کرچلا جائے، اوراگر اس کی شنوائی ہو بھی جائے تو اس کے خلاف کاؤنٹر پرچہ تیار ہوجاتا ہے، آسان لفظوں میں یہ کہ جس کسی کے خلاف بھی شکایت ہوتی ہے، پولیس کا محرر یا کوئی دوسرا اہلکار اسے پہلے ہی آگاہ کر دیتا ہے اور اسے راستہ دکھایا جاتا ہے کہ تم بھی شکایت کنندہ کے خلاف جوابی پرچہ کٹوا دو، پھر دونوں فریقوں سے مال پانی لیا جاتا ہے، فتح مند وہ ہوتا ہے جس کی جیب میں زیادہ پیسہ ہو،پاکستان میں پولیس عدلیہ اور انتظامیہ کی تاریخ کبھی قابل رشک نہیں رہی، یہ ادارے عوام کے نہیں طاقتوروں کے ادارے ہیں۔ بظاہر انصاف کی فراہمی اور قانون کے نفاذ کے ذ مہ دار یہ ادارے سول حکومتوں کے سائے تلے بھی عیش کرتے ہی دکھائی دیے ،حکومتوں نے انہیں اپنے مفادات کی تکمیل اور مخالفین کی تذلیل کیلئے استعمال کیا۔ ٭٭٭٭ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثارکا احتساب خود عدلیہ کے اندر سے شروع ہوتا، وہ ماتحت عدلیہ جو پولیس کی طرح بدنام ہے، پولیس اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ ہی نہیں، یہ دونوں تو سگی بہنیں ہیں، ان دو انصاف دینے والے اداروں اور خاص طورپر ماتحت عدلیہ کی کرپشن کہانیاں کئی سال تک مسلسل سنا سکتا ہوں، ساری عمر لکھ سکتا ہوں، ٭٭٭٭ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور میرے سامنے نیٹ پر بوم بوم آفریدی کا ایک ٹویٹ فلیش ہو رہا ہے جو اپنے قارئین سے شئیر کرتا ہوں ،،چیف جسٹس صاحب! وقت نکال کر اپنی ماتحت عدالتوں کے بھی اچانک دورے کریں اور ان عدالتوں کو بہتر بنائیں،، ٭٭٭٭ میں خدیجہ کے حوالے سے اپنا آج کا کالم ادھورا چھوڑ رہا ہوں، اس کا دوسرا حصہ آپ ان شاء اللہ پرسوں اتوار کو پڑھ سکیں گے، میں آپ کو ایک اور خدیجہ کی کہانی سناؤں گا جو چالیس سال پرانی تو ہے لیکن آج تک بار بار دہرائی جا رہی ہے، اس کہانی کا مرکزی کردار ایک سولہ سال کی لڑکی تھی جو دو جوان بیٹیوں اور اپنے ماضی سمیت ابھی زندہ ہے۔ ٭٭٭٭ اور اب آخری بات پی ٹی آئی اور ریحام خان کے درمیان کتاب کے حوالے سے گھمسان کا رن پڑا ہے، جنگ عروج پر ہے تمام نیوز چینلز اور اخبارات میں سنسنی خیز خبریں چل رہی ہیں، بحث مباحثے ہو رہے ہیں، ریحام خان کو آپ جتنا بھڑکاؤ گے، اتنے ہی شعلے آپ کی جانب لپکیں گے، کتاب ریحام خان نے لکھی ہے یا نہیں لکھی۔۔ عمران خان کے ساتھی اسے کتاب کا اسکرپٹ ضرور لکھ کر دے رہے ہیں ، حمزہ عباسی اور فواد چوہدری نہ جانے کیوں حد سے زیادہ جذباتی ہو رہے ہیں؟عزت کسی کے گالی دینے سے خراب نہیں ہوتی، عزت گالی کا جواب گالی سے دینے پر برباد ہوتی ہے۔۔ استعمال شدہ اور برائے فروخت لوگوں سے اجتناب ہی اچھا ہوتا ہے، جیتنا ہو تو نظر انداز کرنا سیکھ لو۔ فی امان اللہ۔