ایک طرف آٹے اور پٹرول کے محتاجوں کی قطار ہے اور دوسری طرف کابینہ میں نئے شامل ہونے والے لوگ جو بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے ایک سندھی آرٹسٹ کے بنائے پینسل سکیچ ٹوئٹر پر پوسٹ کئے۔ایک ٹرک آٹے کے تھیلوں سے بھرا ہے۔لوگوں کا ہجوم ہے۔ایک سے مرجھائے اور بے نقش چہروں والے لوگ آٹے کی سفیدی میں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔یہ کل چار سکیچ ہیں۔نفیسہ شاہ ایک سنجیدہ خاتون ہیں۔یقینا انہوں نے فنکار کی درد مندی و بے بسی کا اندازہ لگا لیا اور یہ جانتے ہوئے کہ لوگ ان کی جماعت کو حکومت کا حصہ بتاکر انہیں برا بھلا کہہ سکتے ہیں، انہوں نے داد دی۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پاکستان کے لوگ ہر طاقتور کے متعلق دل میں کچھ طے کر چکے ہیں۔ کسی وقت باتیں چھپا لی جاتی تھیں۔سچ کا چہرہ کالے کپڑے سے چھپا لیا جاتا تھا۔حرف احتجاج کو حرف مدح سے تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ جب ہر حربہ ناکام رہتا تو آخر دین اور ملک کا واسطہ دے کر لوگوں کو ہمنوا بنا لیا جاتا۔اب یہ طریقے فرسودہ ہو چکے اور کروڑوں نئے ووٹر مروت سے عاری ردعمل دینے کو تیار رہتے ہیں۔وزیر اعظم اور ان کے ساتھی پہلے روز سے دعوے کر رہے تھے کہ وہ معیشت کو بحال کر کے دکھائیں گے‘ ڈالر کو 200روپے سے نیچے لانے کی شیخی بگھاری گئی۔اسحاق ڈار کو ماوروائی مالیاتی قوتوں والا دیوتا بتایا گیا۔سب ٹیں ٹیں فش ہو گیا۔ اگست 2022ء میں سیلاب آیا۔ بہت نقصان ہوا۔حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ میں نے ایک کالم میں تجویز دی کہ وزیر اعظم فلڈ ریلیف فنڈ قائم کریں۔اگلے دن وزیر اعظم نے فنڈ قائم کر دیا۔یہ ایک اچھا اور حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ تھا لیکن اس میں لوگوں کی عدم دلچسپی حیران کن تھی۔ان ہی دنوں میں عمران خان نے براہ راست نشریات میں لوگوں سے فنڈز کی اپیل کی۔ایک ہی نشست میں 5ارب روپے کے اعلانات ہوئے۔ عمران خان کے مخالفین نے مذاق اڑانا شروع کیا کہ دیکھیں یہ اعلان ہی رہتا ہے یا لوگ واقعی رقوم جمع کراتے ہیں۔ایک ڈیڑھ ہفتے بعد تک آدھی رقم تحریک انصاف کو موصول ہو چکی تھی۔وزیر اعظم فنڈ ریلیف فنڈ کا چھ ماہ کا حساب دیکھ لیں۔بمشکل چند کروڑ ہوں گے۔ حکومت اس معاملے میں خاصی چڑچڑی ہو رہی تھی کہ عمران خان اقتدار سے محروم ہو کر بھی کیسے زیادہ رقم جمع کر لیتا ہے۔اس حساب کو برابر کرنے کا موقع ڈیووس میں سیلاب متاثرین کے لئے ڈونر کانفرنس کا انعقاد کر کے ملا۔ پاکستان نے دوست ممالک کو اعتماد میں لے کر بتایا تھا کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے اسے 15ارب ڈالر درکار ہیں۔اگر عالمی برادری نصف رقم فراہم کر دے تو باقی نصف پاکستان اپنے خزانے سے خرچ کر سکتا ہے۔حکومت کی توقعات سے بڑھ کر بین الاقوامی برادری کا تعاون ملا۔9.5ارب ڈالر کی رقم ملنے کے اعلانات ہوئے۔ حکومت نے شروع میں تاثر دیا کہ یہ رقم امداد کی صورت ہو گی لیکن بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، اسلامی بینک اور دوست ممالک نے جو رقوم دینے کا اعلان کیا ہے وہ پراجیکٹ قرضے ہیں۔ پاکستان کو یہ قرضے واپس کرنا ہوں گے۔چند دن سے جو جشن فتح دیکھا جا رہا تھا وہ گھنگرو ٹوٹنے سے اچانک تھم گیا۔ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے ابھی تک حکومت بتا نہیں سکی کہ اسے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ڈیووس کانفرنس سے کتنے فنڈز موصول ہو چکے ہیں۔ زندگی اور ٹیکنالوجی میں پارٹنر شپ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لوگ فضول دعوے کرنے والے شخص کے ایک ہی جھوٹ پر اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہ انتظار نہیں کرتے کہ اگلا کرپٹ دیکھ لیں۔پی ڈی ایم کا جب کوئی زور نہیں چلتا تو وہ تحریک انصاف کے کسی رکن کو گرفتار کر کے ایک تماشہ لگا دیتے ہیں یا پھر نیا وزیر‘ مشیر اور معاون خصوصی وزیر اعظم کی کابینہ کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔اب یہ بات تو کوئی راز نہیں کہ یہ سارے وزیر، مشیر سرکاری گاڑیوں کی سیر کر رہے ہیں‘ مفت پٹرول لیتے ہیں‘ آرام دہ دفاتر میں دوسوں کو مدعو کرتے ہیں‘ نامعلوم خدمات انجام دیتے ہیں اور شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔خیر سے 85رکنی کابینہ معاشی بحران کے شکار ملک کا مالی بوجھ بانٹ رہی ہے۔ وزیر اعظم کن لوگوں کو مشیر بنا رہے ہیں۔ان کی اہلیت کیا ہے‘ اب تک انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ کون لوگ ہیں۔انہیں کس کے کہنے پر نوازا جا رہا ہے۔وزیر اعظم کچھ نہیں بتا رہے۔ ایک جنگ ان دنوں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر لڑی جا رہی ہے‘ مہنگے مہنگے جنگجو حکومت کا دفاع کرتے ہیں۔ ان مبصرین کے بارے میں سبھی کو معلوم ہے کہ یہ بلامعاوضہ خدمات کے قائل نہیں۔کوئی تو ہے جو ان کی جیب میں ماہانہ لاکھوں اور کروڑوں روپے ڈال رہا ہے۔آٹے کا ٹرک لگا ہوا ہے۔بے چہرہ‘ بھوکے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ایک شخص پائوں پر کھڑا نہ رہ سکا‘ گر پڑا‘ اس سے پہلے کوئی اسے سہارا دیتا روح پرواز کر چکی تھی‘ غریب لوگ جھگڑ رہے تھے۔ایک تھیلا کئی لوگوں کی چھینا جھپٹی کا محور تھا۔ہر کوئی دوسرے کو گرا کر آٹا گھر لے جانا چاہتا تھا۔کشادہ اور مہنگے فرنیچر سے آراستہ ہال میں وزیر اعظم کی کابینہ کے نئے رکن حلف اٹھا رہے ہیں۔لوگ ان کو مبارکباد دے رہے ہیں،پھر مجھے ان کے حلف کے الفاظ آٹے کے ذرات بن کر ہوا میں اڑتے نظر آنے لگے۔غریب‘ وزیر‘ آٹا اور غمناک سی گرد ایک دوسرے میں گھسے چلے جا رہے ہیں۔