پنجاب ، سندھ اور کے پی اسمبلیوں کے اجلاس ہو چکے، پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پیپلزپارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتیں بن رہی ہیں جبکہ بلوچستان میں بظاہر پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل ہے جبکہ مرکز میں آج قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہیِ جس میں متوقع طور پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی حکومت بنائیں گی جبکہ تحریک انصاف کے اراکین اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اسمبلیوں سے تعمیری کام کی توقع رکھنی چاہیے ۔ یایہ اسمبلی کتنی دیر تک چل سکتی ہے؟ یا کس قسم کی تعمیری قانون سازی کر سکتی ہے، اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اس وقت اسمبلیوں میں شدید بد نظمی دیکھنے میں مل رہی ہے ، جی ہاں! یہ بات میں بڑے دعوے اور تجربے کی بنیاد پر کر رہا ہوں کہ ن لیگ کے اندر بھی کافی مسائل ہیں ۔ظاہر ہے اس حوالے سے باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اندر کی خبریں ہی اکٹھی کی جاسکتی ہیں ، لیکن آنے والے دنوں میں ایسے کئی مسائل مزید ابھر کر سامنے آئیں گے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض مر چکا ہوتا ہے، اور ہسپتال والے اُس کا کسی وجہ سے اعلان نہیں کرتے۔ اس وقت پنجاب کی سب بڑی سیاسی جماعت کا یہی حال ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس وقت بہت سے اراکین اسمبلی (پنجاب و مرکز) ناراض ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ہاتھ کیا گیا ہے، اُس میں کس کا بڑا ہاتھ ہے۔ کہ اُنہیں پاکستان واپس بلا کر وزارت عظمیٰ نہیں دی جا رہی ۔ یعنی اُنہیں کیوں بلایا گیا؟ اور پھر اُنہیں پاکستان بلا کر اُن کی تذلیل کیوں کی گئی؟ بلکہ الزام لگانے والے الزام بھی لگا رہے ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ کس نے کھڑا کیا۔ کہ سب سے پہلے نواز شریف کو پاکستان بلایا گیا، پھراُن سے الیکشن مہم کروائی گئی۔ اور ایک صاحب اقتدار اُنہیں سونپنے کے بجائے خود بیٹھ گئے(حالانکہ اُن کی 16ماہ کی کارکردگی کو کون نہیں جانتا؟۔ لہٰذایہاں پر یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کو جو ووٹ ملا کیا وہ نواز شریف کا ووٹ نہیں تھا؟ جی ہاں ! بالکل نواز شریف کا ووٹ تھا۔ لیکن اُنہیں طریقے سے سائیڈ لائن کر دیا گیا۔وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔اس وقت مسلم لیگ ن کو 2بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ایک آپس میں جبکہ دوسرا پی ٹی آئی کا چیلنج۔ میں یہ باتیں گزشتہ ایک ہفتے سے پنجاب اسمبلی کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کر رہا ہوں۔بسا اوقات اسمبلی میں خود بھی موجود رہا۔ میں رپورٹنگ کے دنوں میں پنجاب اسمبلی کی بیٹ بھی کرتا رہا ہوں لیکن ایک عرصے بعد دوستوں کے اسرار پر پنجاب اسمبلی پہنچا تو وہاں کے حالات مختلف نظر آئے ، مثلاََ جو چیزیں بظاہر نظر آرہی ہوتی ہیں، حالات اُن سے مختلف نظر آئے۔ میں نے محسوس بھی کیا کہ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا مورال بہت ڈائون تھا، جبکہ ان کے مقابلے میں اپوزیشن کے اراکین کا مورال بہت بلند تھا۔ میں دوست ممبران اسمبلی سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ ٹال مٹول کرتے اور باتوں کو ہنسی میں اُڑاتے رہے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت موجودہ صورتحال میں ن لیگی رہنما اپنی جماعت میں گروپ بندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سخت ڈرتے ہیں،اور کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریزاں ہیں۔ لیکن اندر سے ایک دوسرے پر سخت قسم کا کیچڑ بھی اُچھا رہے ہیں۔ یعنی درپردہ ایک دوسرے پر الزام تراشی جاری ہے ۔ اگر حالات ایسے رہے اور مریم نواز یا نواز شریف اس پراپیگنڈے کو روک نہ سکے یا اُن اراکین کے خلاف کارروائی نہ کر سکے، جو یہ چہ مگوئیاں کر رہے ہیں تو ایمانداری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جلد ہی ن لیگ کے اندر مسائل کھڑے ہو جائیں گے اور پھر بادی النظر میں ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم ن گروپ اور عمران خان ایک ہی پلیٹ فارم سے اگلا الیکشن لڑتے نظر آئیں ۔ کیوں کہ ان دونوں گروپوں کا مقصد صاف اور واضح ہوگا۔ بات جلد یا بدیر سامنے آجائے گی۔آنے والے چند دنوں میں جب کابینہ تشکیل دی جائے گی تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن یہاں ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ پنجاب سے ملک احمد خان ا سپیکرپنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں، جبکہ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب جن کا تعلق پنجاب سے ہے، لگتا ہے کہ پنجاب کے حالات مرکز سے بہتر ہوں گے، کیوں کہ مجھے اُمید ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز، ملک احمد خان اور اُن کی ٹیم بہتر گورنمنٹ چلانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہاہوں کہ ملک احمد خان بہت متحمل مزاج ہیں، پڑھے لکھے ہیں، اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے سیاستدان ہیں۔ جبکہ دوسری جانب رانا آفتاب خاندانی سیاستدان ہیں، وہ بھی اضافی مسائل پیدا کرنے والی شخصیت نہیں ہیں۔ ہاں ان میں ایک اور بھی شخصیت شامل ہے، اور وہ ہے تحریک انصاف کے عامر ڈوگر، جن کے حوالے پنجاب کے سیاسی اُمور کیے گئے ہیں۔ وہ بھی بہت قابل احترام سمجھے جاتے ہیں، بہت مثبت شخصیت بھی ہیں۔ بلکہ میں یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ مجھے ایک سابق سپیکر پنجاب اسمبلی نے بتایاہے کہ عامر ڈوگر، ملک احمد خان اور اُن کی میٹنگ ہوئی ہے، اور انہوں نے پنجاب اسمبلی کو مثبت انداز میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب اسمبلی مرکز سے بہتر پرفارم کر ے گی۔ لہٰذااگر مریم نوازکے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی سیٹ قطعاََ پھولوں کی سیج نہیں ہے، اُنہیں اس بات کا اندازہ یہیں سے لگا لینا چاہیے کہ اُن کی ایک چھوٹی سی غلطی جیسے عظمیٰ کاردار سے گلے ملنے کے حوالے سے جو ویڈیو وائرل ہوئی، اُس میں اُن کا قصورتھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے ، مگر پراپیگنڈہ کرنے والے اُن پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں، اس لیے اگر وہ چاہتی ہیں کہ پنجاب میں بہترین ڈلیور کیا جائے تو یہی اُمید کی جا سکتی ہے، کہ وہ انتقامی سیاست کے بجائے مثبت سیاست کریں۔ نہ کسی سیاستدان پر جھوٹے مقدمات بننے دیں اور نہ ہی کسی کے لیے مسائل پیدا کریں ،بلکہ وہ کوشش کرکے مقتدرہ اور سیاستدانوں کے درمیان نیامیثاق جمہوریت دستخط کروائیں۔ کیوںکہ سیاست میں میثاق جمہوریت تو عام سی بات ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے 2006ء میں نوازشریف اور بے نظیر کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ ایسا کرنے سے اُن کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو ایم پی ایز ، جیل میں ہیں، اُن کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جائیں، اُنہیں اسمبلیوں میں بلایا جائے، ایسا کرنے سے یقینا تعمیری سیاست کو فروغ ملے گا۔ اور پنجاب کے 13کروڑ عوام سکھ کا سانس لیں گے۔