جو کچھ ہو رہا ہے، یہ نیا نہیں، بس میڈیا کے نئے ذرائع نے سب کے سامنے سب کچھ رکھ دیا ہے، عوام کی نا پہلے کبھی سنی گئی نہ آج کوئی سننے کے موڈ میں ہے، فرق البتہ یہ ضرور سامنے آیا ہے: پہلے جو باتیں ہوٹلوں، کیفوں اور دیگر عوامی بیٹھکوں میں ہوتی تھیں، اب سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل جاتی ہیں۔ بحثیت قوم ہماری تربیت نہیں ہوسکی، نصابی تربیت ایک طرف، زمینی حقائق بہت مختلف یا یوں کہہ لیں: کچھ ہیں ہی نہیں، ہم بڑی سے بڑی باخبر شخصیت کی اندر کی بات کو بھی سچ اور جھوٹ کے ترازو میں تولنے کی بجائے پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ پہلے محسوس ہوتا تھا: ایسا کرنا ہمارا المیہ ہے، اسی بات کا فائدہ اشرافیہ اٹھاتی چلی آرہی ہے اور اس وقت تک اٹھاتی رہے گی، جب تک اجتماعیت کا عنصر ہم پر غالب نہ آسکا، ان دنوں جیل بھرو تحریک کا ہر دونوں جانب سے چرچا ہے۔ حکمرانوں کی بات یہاں اس لیے ضروری ہے کہ اصل ذمہ داران وہ ہوتے ہیں لیکن حکومت کو دیکھ لیں، انتقامی کارروائیوں کے علاوہ اسے نا کوئی کام ہے، نا کوئی کارکردگی۔ وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ جس قسم کی گفتگو کرتے ہیں، کیا یہ ان کے منصب کے شایان شان ہے؟ وزیر داخلہ 25 مئی 2022 ء کی جن کاروائیوں پر اتراتے پیں، اس کا بار بار تذاکرہ کرتے ہیں، شاید جمہوریت بھی شرما جاتی ہو۔ ہم نے تو دیکھا اور سنا تھا کہ صحافی عوام کے حقوق اور ملکی ترقی کی خاطر حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے اور لکھتے ہیں مگر اس مرتبہ ایک نئی کھیپ پرانے اور نئے چہروں کے ساتھ سامنے ہیں، جن کا موقف ہے: ہم غیر جانبدار ہیں، اس غیر جانبداری پر قربان جائیں کہ حکومت کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں اور مخالف سمت سے آواز بلند کرنے والوں کو جانبدار ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، بہت خوب! کیا مہنگائی عوام کو کچل کر رکھ دے، حکمران آئین کو خاطر میں نا لائیں، قانون اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیر کی رکھ دی جائیں تو اس پر آواز بلند کرنے والا جانبدار!!! کیا آئین، عوام کی محرومی، لاقانونیت پر بات کرنا جرم ہے؟ ان دنوں ہی دیکھ لیں، عدلیہ کی تضحیک اور توہین آمیز رویہ پر کیسے بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام پر کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں۔ سر تسلیم خم کہ ہمارا نظام انصاف ڈلیور کرنے میں ناکام ہے، کرپشن کے حوالے سے ماضی اور ماضی قریب میں بیشتر الزامات اٹھتے رہے ہیں لیکن کبھی بہتری کیلئے اقدامات سامنے نہیں آسکے، البتہ جیسے ہی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ اور حکمران اشرافیہ پر بات آتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے، کیا عام آدمی انصاف سے محروم نہیں اور اس کے لیے اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ بہرحال اس وقت بھی وہی کھسا پٹا تماشا ہو رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ سے فیصلہ آیا کہ آئین کے مطابق 90 روز میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے، اس پر محترمہ مریم نواز نے عمران خان کو اپنی طعنہ زنی کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن سے نہیں بھاگ رہے، سلیکشن والا بھاگ رہا ہے۔ ہم تو الیکشن کی تیاریاں کر رہے ہیں، کیمپین چلا رہے ہیں، ٹھیک اگلے روز عدلیہ کے خلاف مہم شروع ہوگئی، ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم نے تابڑ توڑ حملے شروع کردئیے، نعرے لگائے گئے: جج کے داماد ہونی کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے، اس تناظر میں پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر علی افضل ساہی کے خلاف کاروائی کی بازگشت سامنے آئی، یہ معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے میں آئین کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے از خود نوٹس لے کر 9 رکنی بنچ قائم کیا گیا تو محترمہ مریم نواز نے بھرے جلسے میں معزز ججز پر الزامات کی بوچھاڑ کردی، وزیر دفاع خواجہ آصف اگلے روز اسمبلی فلور پر گرجے برسے، لہذا سوال تو اٹھتا ہے کہ عمران خان نے ایک جلسہ میں ایک نچلی عدالت کی معزز خاتون جج کے بارے میں بڑھک لگائی، ان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا اور یہاں بات کہاں سے چلی اور کہاں تک پہنچ گئی مگر ہر سو خاموشی رہی، چلیں ایسے موازنے کو بھی چھوڑیں، سپریم کورٹ کے اس 9 رکنی بنچ نے تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آئین الیکشن کی معینہ مدت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ ایسا کوئی فیصلہ کسی جماعت کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے، کیا کوئی سیاسی جماعت آئین سے بالا تر ہے یا آئین ہی کے تابع ہے، اس بنج میں جن پر خدشات کا اظہار کیا گیا، وہ قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف بھی کیس کی سماعت کے سلسلہ میں 5 رکنی بنچ کا حصہ رہے، حیرت ہے! اس وقت اعتراضات کی پٹاری کیوں نا کھولی گئی، بات صاف ہے، آئین کی عملداری چاہئے یا ن لیگ ۔ پی ڈی ایم تسلیم کر لے کہ وہ انتخابات سے راہ فرار چاہتی ہے، مریم نواز نے جو کہا تھا: ہم الیکشن سے نہیں بھاگ رہے وہ جھوٹ تھا، وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ ہماری رائے ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوں، گویا دل کے ارمان سامنے تو آ چکے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرف آئین ہے اور دوسری طرف خواہشات، جس کیلئے تنقید کی توپوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں۔ عوام کا اس سارے کھیل میں المیہ یہ ہے کہ وہ جذبات میں بہہ کر حکمران اشرافیہ کے ہر ارمان کو اپنی ترقی اور انقلاب کی چاپ سمجھ لیتے ہیں، کیا انقلاب ایسے آیا کرتے ہیں، ایسے انقلاب نہیں آتے بلکہ پستی کی کھائیاں ہم خود اپنے ہاتھوں سے کھود کر اس میں چھلانگ لگاتے ہیں اور اس پر منوں مٹی ڈال کر حکمران اشرافیہ اور اس کی پرودہ اشرافیہ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس ملبے پر کھڑے ہو کر اپنی دھونس دھاندلی جاری رکھیئے اور جو آپ کے ارمان ہونگے وہی دستور بنے گا، آیئے اپنے ارمانوں کے محل تعمیر کیجئے، چاہے اس کا دستاویزی دستور سے کوئی تعلق ہو یا نا ہو، افسوس ہم عوام کی بے حسی ختم نا ہو سکے، نا ہی حکمران اشرافیہ کے ارمان ختم ہوں گے۔