ابلاغ عامہ کی مختلف الجہات ترقی اور تیزی سے بدلتی ہوئی اس کی پیشہ ورانہ نوعیت نے اس کی مقتضیا ت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔معلومات کی تیز رفتار ترسیل کی سہولت نے اس شعبہ کی جدت طرازیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔اعلی اہلیت کے حامل اور کامیاب افرا د کے بارے میں جاننے کی طلب ہر دور میں موجود رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبہ جات سے متعلق نامو رشخصیات کے انٹرویوز ا خبارات اور جرائد کی ایک مستقل ضرورت رہے ہیں ۔انٹرویو نگار ی ابلاغ عامہ کا ایک مشکل اور صبر آزما شعبہ رہا ہے ،اس میں وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو شخصی نفسیات او رعصری تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہوں۔ سننے کا حوصلہ ہو اور سوال کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے ہوں ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنی اہلیت کو ہر سطح پر منوایا ہوا ہے۔ان کی کتاب ’’ یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ ان کی اسی اہلیت کی نمائندہ ہے۔ڈاکٹر طاہر مسعود نے انٹرویو نگاری میں ایک منفرد اسلوب اور جداگانہ طرز کو اختیار کرتے ہوء انٹرویوز کو صحافت کے ساتھ ساتھ ادب کا بھی حصہ بنادیا ہے۔ زبان و بیان پر ان کی دسترس اور شخصیت کو کھنگالنے میں ان کی غیر معمولی مہارت ایسے جوابات بھی لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے جس سے پڑھنے والا ایک حیرت زدہ آگہی سے دو چار ہو جاتا ہے۔ دوران انٹرویو واقعات، نظریات ، کارہائے نمایاں اور درون ذات موجود خوبیاں اور خامیاں سب کچھ اجاگر کرنا ان کے دست ہنر کے لئے ممکن ہو جاتا ہے۔بلا شبہ ڈاکٹر طاہر مسعود کی انٹرویو نگاری کی اسی اہلیت کے باعث انہیں اپنے دور صحافت میں ہر شعبہ ء زیست کے نامور اور نابغہء روزگار شخصیات سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔اور یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے کہ انہیں اس میں کسی مشکل یا مرعوبیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ سوال کرنا جانتے ہیں اور جواب کو سننا اور سمجھنا جانتے ہیں اورپھر جواب سے سوال کس طرح نکالنا ہے۔ یہ ہنر بھی انہیں خوب آتا ہے اور محض اتنا ہی نہیں کہ وہ انٹرویو لئے جانے والی شخصیت کے جواب کو ’’آ منا و صدقنا ‘‘ کہتے ہوئے تسلیم کرلیں بلکہ اس جواب کا محاکمہ کرنا بھی اگر ضروری ہو تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وہ ایک دانشور کی حیثیت سے اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے سے بھی نہیں چوکتیْ۔ انٹرویو نگاری میں ان کی یہ مہارت بڑی حد تک الطاف حسن قریشی سے مماثل ہے ۔الطاف حسن قریشی نے اپنا یہ ہنر زیادہ تر سیاستدانوں پر ہی آزمایا اور خوب آزمایا مگر اس حوالہ سے ڈاکٹر طاہر مسعود کی جولاں گاہ زیادہ وسعت کی حامل نظر آتی ہے ۔سیاست ، صحافت، ادب ، تعلیم، سماجی بہبود، شو بز غرض یہ کہ ہر شعبہ ء زیست سے متعلق شہرت کے حامل افراد سے ان کے لئے گئے انٹرویوز ایک کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔پھر ایک اور خوبی جو ان کے انٹرویو لئے جانے کی اہلیت کو منفردا ور ممتاز کرتی ہے وہ ان کی شخصیت کا ادبی پہلو ہے ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کہانی کار ہیں اور بہت عمدہ خاکہ نگار بھی ہیں۔ اس حیثیت میں ان کے لکھے ہوئے خاکوں کی کتاب ’’ اوراق نا خواندہ ‘‘ سند کا درجہ رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی انٹرویو نگاری محض صحافیانہ اسلوب کی حامل نہیں رہی بلکہ اس میں خاکہ نگاری کا ادبی رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ’’ یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ ڈاکٹر طاہر مسعود کے لئے جانے والے ان ہی انٹرویو ز پر مشتمل کتاب کی جلد دوم ہے ۔ جس میں مختلف شعبہ ء حیات سے متعلق بیالیس نامور شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں جو مختلف اوقات میں لئے گئے اور مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔ انہیں ان کی اہمیت کے پیش نظر کتابی شکل میں یکجا کیا گیا ہے تاکہ با ذوق قارئین کی نئی نسل بھی ان سے اکتساب علم کر سکے۔ان کی اشاعت سے متعلق ڈاکٹر طاہر مسعود نے جو وضاحت کی ہے ۔اس کے مطابق ’’ معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مشاہیر سے یہ مکالمے ماضی بعید ، ماضی قریب اور حال کے بھی ہیں ۔ ان سب کو یکجا اس لئے بھی کردیا گیا کہ ان مکالموں میں سیاست، مذہب، سماجی خدمت، تعلیم، ادب، صحافت، ڈرامہ، کھیل، دفاع اور اشتہارات جیسے موضوعات اور مسائل پر فکر انگیز خیالات و معلومات کا خزانہ اکھٹا ہو گیا ہے۔‘‘ اسی ضمن میں وہ مزیدوضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’ بلا شبہ کتاب میں شامل اکثر مکالمے بہت پرانے ہیں ۔ بعض تو میرے زمانہ ء طالب علمی کے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اپنے خیالات کی تازگی کی وجہ سے پڑھنے والوں کو آج بھی دل چسپ اور معلومات افزا محسوس ہوں گے ۔ ‘‘ زمانہ ء طالب علمی کاہی یہ شوق تھا جو انہیں کشاں کشاں اس عہد کی نامور مذہبی اور سیاسی شخصیت مولانا مودودی تک لے گیا جن کا انٹرویو انہوں نے جامعہ کراچی کے مجلہ الجامعہ کے لئے 1978 میں لیا تھا ۔اور پھر یہ شوق ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں ان کا ہنر بن گیا ۔جن نامور شخصیات کے انٹرویو اس کتاب میں شامل ہیں ان میں مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد،مولانا شاہ احمد نورانی،پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی، ڈاکٹر منظور احمد،ڈاکٹر عطا الرحمن،پروفیسر متین الرحمن مرتضی ، میر خلیل الرحمن ، الطاف حسن قریشی ، محمد صلاح الدین ، ضمیر نیازی، فرہاد زیدی ، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، احمد جاوید، طلعت حسین ، کمال احمد رضوی، حمید کاشمیری ، انور مقصود، راحت کاظمی، زاہدہ حنا، مہتاب چنہ ( مہتاب راشدی) اور ایس۔ ایچ۔ ہاشمی نمایاں ہیں۔ان شخصیات کے ناموں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی ڈاکٹر طاہر مسعود کی ہنر مندی کی وسعت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کس خوبی سے مختلف شعبہ ء زیست کے نامور افراد کے خیالات و افکار کو سنا ،سمجھا اور پھر ایک دلچسپ اور منفرد اسلوب میں انہیں پڑھنے والوں کے لئے پیش کردیا۔ ضرورت کے مطابق ان انٹرویوز میں سوانحی معلومات بھی شامل کی گئی ہیں ۔ ہر انٹرویو لئے جانے والی شخصیت کی تصویر کی موجودگی اوراس کے نیچے درج جملے نے کتاب کے حسن اور جاذبیت کو مذید نکھار دیا ہے۔ 666 صفحات پر مشتمل ’’ یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ کی جلد دوم عمدہ کاغذ اور بہتریں طباعت کے ساتھ 2018 میں فضلی سنز ، کراچی سے شائع ہو ئی ہے۔ اس کا مطالعہ ہر صاحب ذوق قاری کے لئے بالعموم اور ابلاغ عامہ کے طالب علموں کیلئے بالخصوص بہت ضروری ہے ۔