سلطان محمود غزنوی کے ایک غلام کا نام ایاز تھا، ایک روز سلطان نے ایاز کو اپنی انگوٹھی دیتے ہوئے کہا کہ اس پر کچھ ایسا لکھ دو: میں خوش ہوں تو غمگین ہو جاؤں اور غمگیں ہوں تو خوش ہو جاؤں، ایاز نے انگوٹھی پر تحریر کردیا "یہ وقت بھی گزر جائیگا". مادر وطن کے موجودہ حالات پر ایاز کی متذکرہ تحریر ہر اعتبار سے موزوں ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائیگا، پی ڈی ایم حکمران نے ہر حد کو عبور کر لیا ہے، ان کو کاش کوئی سمجھا دے: ہر حد کی بھی ایک حد ہوتی ہے مگر کون ایسی جسارت کرے، جب طاقت کے زعم میں اخلاقیات دھندلا چکی ہیں، عوام کا بھرکس نکال کر ناخدائی کا اتنا شرمندہ کر دینا والا رقص وطن عزیز کی تاریخ میں ڈھونڈے نہیں ملتا کہ احتجاج کناں پر ہی انتقامی کارروائی شروع کر دی جائے، کیا وفاقی کابینہ کی ایک لمبی قطار میں سے کسی نے اپنے وجود کے اس حصے کو نہیں جھنجھوڑا جہاں خانہ دماغ ہوتا ہے، کیا کبھی کسی کو ضمیر کی ملامت نے جھنجوڑا کہ اس غریب و مفلس رعایا پر ترس کھائیں اور کابینہ میں اس تحریک کو اجاگر کریں: جناب اپنی قطار چھوٹی کریں تاکہ بحرانوں میں گھری معیشت پر کچھ بوجھ کم ہوسکے، کیا گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی جماعتوں جنہوں نے پی ڈی ایم جیسا غیر فطری اتحاد قائم کر رکھا ہے، سوچنے کی زحمت کی کہ جن نوجوانوں پر سوشل میڈیا کی بابت مقدمات درج کرواتے، انھیں ڈراتے دھمکاتے ہیں، وہ اس مملکت کے مستقبل کے پاسباں ہیں، افسوس کوئی سوچتا ہی نہیں، اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، انسانی دماغ کی صلاحیتوں کا کوئی ثانی نہیں، اے اہل اقتدار کبھی سوچو کہ ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟ کبھی ادارک کے لمحات کو شعور کی وادیوں میں سیر کراؤ اور اپنے دامن میں فہم کی بدولت فراست کی افزائش کرو تاکہ علم ہوسکے؛ عمران خان کی مقبولیت کی وجوہات کیا ہیں؟لیکن جب مقصود فقط اقتدار کے ذریعے حاکمیت ہو اور اس کے درپردہ مخصوص مفادات ہوں تو شعور کا پیدا ہونا ممکن نہیں، عجب حاکم وقت ہیں کہ کارکردگی ریاستی ظلم و جبر کے سوا کچھ نہیں، ایسے میں عمران خان درست کہتے ہیں کہ یہ حکمران اب کسی اور کے نہیں، عوام کے خلاف مصروف عمل ہیں، مہنگائی تاریخ کی بدترین سطح پر ہے، بیروزگاری ہے کہ ہر شعبے میں سرکش ہاتھی کی مانند تباہی برپا کیے ہوئے ہے، صنعتیں، کارخانے، تجارتی مراکز تعطل کا شکار ہو رہے ہیں، اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ ضد اور ہٹ دھرمی کہ انتخابات نہیں ہونگے، عدالت عظمیٰ کو بھی جو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں، ان کی ڈھٹائی پر محض قوم کی قوت پر سوالات کے انبار لگتے ہیں،حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا: جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی۔۔۔۔۔۔اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو!!! عمران خان نے عید الفطر کے بعد پرامن احتجاج کی کال دتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا پلان ہے کہ 27 تاریخ سے دوبارہ پکڑ دھکڑ شروع کی جائے، انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت میں ابھی تک ن لیگ کا کوئی بندہ نہیں پکڑا گیا لیکن نگراں حکومت نے ہمارے 3 ہزار کارکنان گرفتار کیے، کسی نگراں حکومت میں ایسا ظلم نہیں ہوا، جیسے اب ہورہا ہے، عمران خان نے کہا کہ اس ظلم پرخاموش نہیں رہ سکتے، قوم تیا ری کرے؛ عید کے بعد پْرامن احتجاج شروع کریں گے، ہوش کے ناخن لیں اس قوم کو بچائیں، جب تک الیکشن نہ ہوں, ملک کی معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، عمران خان نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو صرف سپریم کورٹ بچا رہی ہے، سپریم کورٹ بیٹھ گئی توملک میں جمہوریت ختم ہوجائیگی، عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پیسہ چوری ہوکر باہرگیا، دبئی میں پاکستانیوں کے 10.4 ارب ڈالرز پراپرٹی کی صورت میں موجود ہے، کذشتہ ایک برس سے قوم اپنے رجحان کے برعکس بڑی حد تک قربانی دیتی چلی آرہی ہے، گرفتاریوں ہوں، زمان پارک آپریشن ہو یا عدالتوں میں پیشیاں، قوم ڈٹ کر کھڑی ہے، سپریم کورٹ اور آئین کی بالادستی کی خاطر وکلاکی صفوں میں جوش و جنون بڑھ رہا ہے، عوام آئندہ تحریک انصاف کے ہمراہ میدان میں ہوگی کہ حکومت اپنے معاملات درست کرنے کو تیار نہیں،حکمران معاشرے میں انقلاب کی سلگتی چنگاری کو ہوا دے رہے ہیں، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے، پاکستان عالم اسلام کی کمان سنبھالنے گا، حال کے سناٹے میں وقت کی سرسراہٹ ہے کہ مادر وطن میں انقلاب دروازے پر دستک کناں ہے، اب حکمرانوں کا زعم ٹوٹ کر رہے گا، اگر کسی کو یقین نہ ہو تو ایوب خان کے گیارہ سالہ اقتدار، ضیاء الحق کا اقتدار اور پرویز مشرف کی اقتدار سے چاہ کو دیکھ لے، اقتدار کے در و دیوار گواہ ہیں کہ عوامی حمایت سے محروم پر جابر سلطان کو گھر کا راستہ دیکھنا پڑا، وہ اقتدار اور سیاست دونوں سے گئے، موجودہ حکومت کا البتہ کمال یہ ہوگا کہ اس کا دھڑن تختہ 10 سے زائد جماعتوں کا سیاسی جنازہ ہوگا، کہا جارہا ہے کہ ایک مرتبہ دوبارہ نہ صرف عمران خان کو گرفتار کرنے کا حکومت پورا زور لگائے گی بلکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی مزید گرفتاریوں کا بے رحم موسم شروع ہوگا، عمران خان بھی اس جانب یہ کہہ کر اعتراف کر چکے کہ عید کے بعد پرامن احتجاج شروع کرینگے، حکمران ہر اعتبار سے طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ وہ عوام کے نمائندہ حکمران نہیں، محض اقتدار سے چمٹا ایک ٹولہ ہے، جن کے بارے میں حالات سے بیزار عام آدمی کا گمان ہے کہ ان کی محرومی کے اصل ذمہ دار یہ ہیں، عوام کے صبر کا پیمانہ مسلسل لبریز ہو رہا ہے اور انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہے، حکمران کسی ایسے ایڈونچر کے موڈ میں ہیں کہ محرومی کی سلگتی چنگاریوں کو ہوا ملے گی، ایسے میں غمگین و مایوس دلوں کیلئے ایاز کا یہ جملہ مرہم ہے "یہ وقت بھی گزر جائیگا۔‘‘