پاکستان کے مستقل نگرانوں نے شاید کبھی سوچا نہ ہونگا کہ عوام بجلی کے ذرا سے بھاری بلوں پر اس قدربھڑک جائیں گے کہ شہر شہر میں مقامی سطح پر منظم ہوکر مظاہرے شروع کردینگے۔ اپنی طرف سے تو انہوں نے ساری پلاننگ کرلی تھی۔ پچھلی حکومت کی ساری آنیاں جانیاں اور بیان بازیوں کے باوجود انہوں نے اپنی مرضی کی نگران حکومت بھی بنوا لی۔ اس سے پہلے اپنی بی ٹیم سے مرضی کی ساری قانون سازی بھی کروالی اور ملک میں فساد کی مرتکب جماعت کی مشکیں بھی خوب کس لیں۔ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کو بھی آئین سے مارورا کردیا۔ عظیم معاشی ماہرین بھی مشورے دے رہے ہونگے کہ سر آپ کی وجہ سے ملکی معیشت میں استحکام آرہا ہے، دیکھیے اسٹاک مارکٰیٹ کیسے چڑھ رہی ہے اورجلد ہی غیرملکی سرمایہ کاری کی ریل پیل ہونے والی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو یہ تو عالمی مسئلہ ہے۔ دیکھیے امریکہ میں کتنی مہنگائی ہوگئی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان کی فی کس آمدنی سترہزار ڈالرہے اور ہماری پندرہ سو ڈالر ہے، مگر اس کو نظر اندازکریں۔ ہمیں بس آئی ایم ایف کو دیکھنا ہے، اب اس ملک میں لوگ بجلی، تیل اور گیس کی مارکیٹ کی قیمت ادا نہیں کرتے ہیں۔ اس بات کو نظر انداز کریں کہ سرکار باالواسطہ ٹیکس کی مد میں عوام کو کتنا نچوڑلیتی ہے۔ ڈالر کو مارکیٹ میں فری فلوٹ ہونا چاہیے۔ امپورٹس پر ڈیوٹیاں ختم ہونی چاہیں اور ملک کو مکمل کھلی معیشت کا ماڈل اپنانا چاہیے۔ اب نگران حکومت ہے، اس نے کونسے ووٹ لینے ہیں۔ مزے سے بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے جائیں، آخر خسارے کا بجٹ بھی تو پورا کرنا ہے۔ عوام تھوڑا بہت شور مچائیں گے، پھر جل کڑ کر گزارہ کرنے کی جدوجہد میں لگ جائیں گے۔ جب تک مملکت خداداد میں ترقی کے عظیم منصوبے پائے تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ مگر کتنی بے صبری ہے ہماری قوم کہ بجلی کے بل دینے سے انکاری ہوگئی ہے۔ اگر ایک وقت پیٹ پر پتھر باندھ کر بجلی کے بل ادا کردے گی، تو اسے پتہ چلے گا کہ ملک آہنی ہاتھوں میں کتنی ترقی کرے گا۔اسلام آباد اور دلی کے بجلی بلوں میں کتنا فرق ہے ، عوام کی معلومات کے لیے بجلی کے بلوں کا اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان کو اپنی مہان ملکی قیادت کے جوہر کا علم ہوسکے۔ اس کے لیے ہم پاکستان سے اسلام آباد کی سرکاری بجلی کمپنی آئیسکو اور بھارت سے دہلی کی نجی بجلی کمپنی بی ایس ای ایس کے بلوں کی جانچ کریں گے۔ اس کے لیے ہم نے ان بلوں کا انتخاب کیا ہے، جہاں مہینے میں تین سو سے ساڑھے تین یونٹ استعمال ہوئے ہیں۔ دونوں کمپنیوں میں یونٹس کی یہ تعداد ٹیرف کے ایک سلیب میں آتی ہے۔ بھارتی بجلی کے بل کے اعدادوشمار پاکستانی روپوں میں پیش کئے جائینگے۔ اسلام آباد کے صارف کو اس وقت بجلی کے فی یونٹ کے55 روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں، جبکہ دہلی کے صارف کو بجلی کا ایک یونٹ20.21 روپے کا پڑرہا ہے۔ مگر دہلی کی سرکار200 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو%100 بل میں سبسڈی دی جارہی ہے اور400 یونٹس استعمال کرنے والوں کو%50 کی بل میں سبسڈی فراہم کی جارہی ہے۔ اس طرح ہمارے کیس میں دہلی کے صارف کو فی یونٹ بجلی کے مد میں12.39 روپے ادا کرنے پڑیں گے۔ اگر ہم صرف خالص بجلی کے چارجز پر نظر ڈالے تو اسلام آباد میں یہ36.62 روپے فی یونٹ ہے، جبکہ دہلی میں یہ12.82 روپے فی یونٹ ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز دونوں شہروں کے بلوں میں موجود ہیں۔ ایک اہم فگرسرکاری ٹیکسوں کا ہے۔ دہلی میں سرکار فی یونٹ2.13 روپے ٹیکس وصول کررہی ہے، جبکہ اسلام آباد کا صارف اس سے چار گنا سے زائد8.86 روپے فی یونٹ سرکاری ٹیکس کے مد میں ادا کررہا ہے۔ اب ماہانہ350 یونٹ استعمال کرنے والے صارف کا اسلام آباد میں بل19245 روپے ہوگا اور دہلی میں یہ بل4373 روپے میں پڑیگا۔ اور دونوں شہروں کی فی کس ماہانہ آمدنی کا اندازہ لگایا جائے، تو دہلی میں یہ آمدنی79047 روپے ہے، جبکہ اسلام آباد میں یہ محض50687 روپے فی کس ہے۔ لیکن350 یونٹ استعمال کرنے والوں کی اوسط آمدنی اس سے کہیں کم ہونگی۔ اسی لیے ہم پاکستان کی سڑکوں پر عوامی غیض وغصب کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی حکمران اشرافیہ کو داد دینی پڑے گی کہ وہ دن رات ایک کرکے اپنے عوام کو بھارت سے چارگنا زیادہ قیمت پر بجلی فراہم کررہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ یہ فرق پانچ گنا کا ہوجائے۔ مگر قوم ہے کہ احسان مند ہی نہیں ہورہی ہے۔ حکومتی سقراط مختلف مراعاتی طبقات کو مفت بجلی کی فراہمی کو بند کرنے کو اپنی دانش کی نشانی سمجھ رہے ہیں۔ تاکہ عوام کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ اب عوام کو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں حکومتی زعما کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام پرجو مستقل ڈاکہ ڈال رہی ہیں، اسے کمبل کے نیچے چھپانے کی کاوشیں ہمیشہ کی طرح جاری و ساری ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ یہ قانونی ڈاکہ زنی صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں ہے۔ پاکستانی معیشت مافیائوں کی اجارہ داری کا نام ہے، جہاں سرکاری اللے تللے اور نجی منافع خوری عوام کا کچومر نکال کر پوری کی جاتی ہے۔ بجلی کے بلوں نے جو عوامی تحریک پیدا کی ہے،وہ محض بلوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے ۔ بلکہ اس تحریک کو معاشی انصاف کے حصول میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ ہمارا معاشی نظام ایک ناانصافی پر مبنی ظالمانہ نظام ہے،جو عام آدمی کو عزت سے جینے کے حق سے محروم کرتا ہے۔ہمیں سب سے پہلے مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا ہونگا۔ان کو پراپرٹی، اسٹاکس، لگژری گاڑیوں اور آمدنی پر بھاری ٹیکس دینا ہوں گے ۔ عوام پر سے باالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنا ہوں گے ۔ عوام پر یہ آفت ٹیکسوں میں عدم تفاوت کی وجہ سے ہے۔ اشرافیہ کو پتہ ہے کہ کرپشن کا پیسہ کم ٹیکس والے شعبوں میں حلال کیا جاسکتا ہے، تو وہ کیوں نہ کک بیکس لے کر بجلی مہنگی بیچیں گے۔ اب ملک میں معاشی انصاف کے لیے جدوجہد کا وقت ہے۔