پاکستان میں ویسے تو بجلی کبھی بھی مفت اور سستی نہیں ملی لیکن گھر گھر جتنی آگ اب بجلی کے بلوں نے لگائی ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پچھلے چند ماہ میں ہونے والے بجلی کے بلوں میں اضافے نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے اور میری رائے میں انہیں بجلی بل کی بجائے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ پہلے عوام غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرتے تھے اب بجلی کے بلوں نے انہیں اپنی جان لینے پہ مجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور بلوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کو سڑکوں پہ نکلنے اور احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا۔دل جلی عوام نے بجلی کے بل جلا جلا اپنی بیبسی اور غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں نگران وزیراعظم نے ہنگامی اجلاس طلب کر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ٹھوس اور قابل ذکر اقدامات اٹھائے جائیں گے یا محض باتیں ہی ہونگی؟اگرچہ توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑی حکومت کے لیے عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنا ممکن نہیں۔بجلی بلوں کی آڑ میں عوام سے جو بھاری ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں وہ ہر ذی شعور کی سمجھ سے باہر ہے۔ گویا پندرہ ہزار کی بجلی خرچ ہوئی ہے تو بیس ہزار کے ٹیکس شامل کرکے پینتیس ہزار کا بل بھیج دیا جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راج! اب تو اچھی بھلی آمدن والے لوگ بھی بجلی بلوں کو رو رہے ہیں تو متوسط طبقہ اور غریب لوگ کہاں جائیں؟ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے جہاں فی یونٹ قیمت پانچ روپے چالیس پیسے تک پہنچ گئی ہو، اس ملک میں عوام دو وقت کی روٹی کھائیں،گھر کا کرایہ ادا کریں ، بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں یا صرف بجلی کا بل ادا کریں۔ میری رائے میں اسوقت حکومت کا سب سے بڑا چیلنج عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے اور اس میں وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اگرچہ چار سو یونٹ والوں کو ریلیف دیئے جانے کا امکان ہے لیکن یہ کوئی دیر پا حل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے تو واضح کر دیا ہے کہ چاہے جتنے بھاری بل ہوں ادا تو کرنے پڑیں گے نیز ٹیکسوں میں کسی صورت کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ لیکن ستم ظریفی تو اپنوں کی ہے جو عوام کیلیے بدترین دشمنوں سے بڑھ کر ہے۔ حکومت اور اس سے جڑے تمام ادارے اپنے عیش و عشرت اور ٹھاٹ باٹ چھوڑنے کو تیار نہیں،بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں اور پینشنز کی ادائیگی کی نظر ہو جاتا ہے۔ معیشت گردشی قرضوں کے عذاب میں پھنسی ہوئی ہے اور ہمارے پاس مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس قوم نے کیا ترقی کرنی ہے جسکے کرتا دھرتا عوام کو پچھلے پچھتر سالوں سے غربت، بیروزگاری ، مہنگائی کے دلدل سے باہر نہیں نکال سکے۔ باقی دنیا تو ایک طرف ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی کوئی سبق حاصل نا کر سکے۔ ہماری شرمندگی اور ذلت کیلیے اتنا احساس ہی کافی ہے کہ ہمارا سب سے دیرینہ دشمن جسے ہم گالیاں دیتے نہیں تھکتے آج چاند پہ جا پہنچا اور ہم بجلی بلوں کو رو رہے ہیں۔ ہمارے عوام اور حکمران کولہو کے بیل کی مانند گردشی قرضوں کے گرد بھاگتے چلے جارہے ہیں اور یہ گول دائرے کا سفر ہمیں پھر سے وہی لا کھڑا کرتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ ہر مسئلے کا حل ضرور ہوتا ہے لیکن پاکستان میں مسائل کے انبار ہیں اور ایک مسئلہ حل کرنے کیلیے اس سے جڑے دیگر مسئلوں کو بھی حل کرنا پڑتا ہے۔ بجلی بلوں سے نجات کیلیے فی الحال سولر انرجی سے بہتر اور کوئی حل موجود نہیں۔ لیکن یہاں بھی روپے پیسے کی قدر سے جڑے مسائل سامنے آجاتے ہیں کہ جب کوئی چیز درآمد کی جاتی ہے تو اسکی قیمت ڈالر کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے۔ گویا سولر پینل بھی صرف امیروں اور اچھی آمدنی والے گھرانوں کی قسمت میں لکھا ہے اور متوسط اور غریب طبقہ اس سے استفادہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ روپے کی قدر میں بہتری نہیں آجاتی۔ کیونکہ دو پلیٹس والے سولر پینل کو خریدنے کیلئے بھی کم از کم دو سے تین لاکھ درکار ہوتے ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ جہاں لوگ ادھار پکڑ کر، زیور اور قیمتی اثاثے بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہوں وہاں سولر پینل کون لگوائے گا؟؟ محض ایک سال میں مہنگائی کی شرح میں سو فیصد اضافے نے لوگوں سے انکا سکون، چین اور آرام سب چھین لیا ہے۔ بے بس و بے حال عوام کے پاس اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بجلی کا بل ادا کریں یا زہر کھا کر مر جائیں۔ میرے خیال سے بجلی بلوں کے ساتھ حکومت اگر عوام میں مفت کفن بانٹ دے تو بیچارے غریب عوام کے کفن دفن کا خرچہ تو بچ جائے گا یا کم از کم زہر کی ایک شیشی میں بل لپیٹ کر ہر گھر بھجوایا جائے تو اس عذاب نما زندگی سے چھٹکارہ پانا ممکن ہو جائے گا۔ بہرحال،قصہ مختصر یہ کہ وطن عزیز سے بڑی تعداد میں پڑھے لکھے لوگوں کا بیرون ملک چلے جانا اس امر کی دلیل ہے ہماری تمام سابقہ حکومتیں پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ دنیا ترقی کے بیشمار زینے طے کر چکی اور ہمارے مسئلے بجلی، صاف پانی، سستی روٹی، اور مہنگائی سے باہر نہیں نکل سکے۔ سائنس، ٹیکنالوجی ، چاند ستاروں پہ کمند جیسے خواب محض خواب ہی رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی انہیں مسائل میں گھری اپنی پشتوں کو کوس رہی ہونگی جیسے کہ آج ہم خون کے آنسو روتے ہوئے انہیں کوستے ہیں جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا۔ جہاں ظلم، بے انصافی اور بربریت کا راج ہو وہاں ترقی کے پھول کبھی نہیں کھلتے۔