حال ہی میںممتاز پولیٹیکل اکانومسٹ نیاز مرتضیٰ کا ایک دلچسپ مضمون نظر سے گزرا۔ اپنے اس مضمون میں نیاز صاحب نے اقوامِ عالم کو دوبڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے حال ہی میں آزاد ہونے والی اُن 26 ریاستوں کے عروج وزوال کا اجمالی جائزہ پیش کیاہے جو جنگِ عظیم دوئم کے بعد نو آبادیاتی تسلط سے نجات پاکر وجود میں آئیں۔ اِن نوزائیدہ ریاستوں میں سنگاپور، مشرتی تیمور،بنگلہ دیش، پاکستان ، لبنان ، اریٹریا، جنوبی سوڈان، 6 عدد یوگوسلاوین ، جبکہ یوکرین سمیت 14 سابقہ سویت ریاستیں شامل ہیں۔اِن 26نو آزاد ریاستوں کو مزید تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سنگاپور، کروشیا، سلواکیا، لیٹویا، سلوینیا،لیتھوینیا،اور ایسٹونیا پہلے گروپ میں شامل ترقی یافتہ اور آسودہ حال اقوام کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان ریاستوں کی اکثریتی آبادی70فیصدیا اس سے زیادہ ہم نسل (Homogeneous) نفو س پر مشتمل ہے ، جبکہ آزادی سے پہلے بھی ان ریاستوں کی ایک اپنی قومی پہچان تھی۔ دوسرے گروپ میںیوکرین سمیت نسبتاََ کم ترقی یافتہ ریاستیںرکھی گئی ہیں۔ اس گروپ کی ریاستیں کثیر القومی (Subnationalities) آبادی پر مشتمل مگرآزادی سے پہلے بھی ایک تاریخی وجود کی حامل رہی ہیں۔نو زائیدہ ریاستوں کا تیسرا گروہ پاکستان، سوڈان، لبنان، بوسنیا، اوراریٹریا جیسے ممالک پر مشتمل ہے۔ اس گروپ کی مشترکات میں ان کی معاشی پسماندگی، سیاسی بے یقینی ، سلامتی سے متعلق فکر مندی،کثیر القومی آبادی اور تاریخی وجود سے محرومی شامل ہیں۔نیاز مرتضیٰ کا خیال ہے کہ ،’ لامتناعی مشکلات کا شکارآخرالذکر پانچ ریاستوں کا مسئلہ ان کے DNA میں قومی شناخت (Nationhood)کانہ ہونا ہے۔ تاریخی وجود، اورنسلی اکائی (Homogeneity) جیسے فطری اسباب کی عدم موجودگی میں ’قومیتوں ‘ کو بطور’ قوم‘ ایک لڑی میں پرونے کا واحد راستہ ریاست کے تمام شہریوں کے اندر ’حصہ داری‘ کا احساس پیدا کرنے میں پنہاں ہے‘۔کہا جا سکتا ہے کہ جس ریاست کے شہری اپنی شناخت، قومی معاملات میں شمولیت اور اپنے بنیادی حقوق سے متعلق متفکراور نادیدہ محرومیوں(Perceived depriviation) کامستقلاََ شکار رہیں ،ان ریاستوں کو قومی انتشار کا شکار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انتشار کی صورت میں ایلیٹ گروہ قومی معاملات اور وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں محروم طبقات ریاست پر اعتماد کھو بیٹھتے اور سرحدوں کے باہر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ایسی ریاستیں ہی بالآخر بیرونی طاقتوں کی چراگاہ بنتی ہیں۔ چنانچہ تاریخی وجود اور قومی ہم آہنگی سے محروم کسی بھی نوزائیدہ ریاست کے باسیوں میں قومی شناخت (Nationhood) کا احساس پیدا کیا جانا ریاست کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ نیاز مرتضیٰ کی رائے میں ایسا صرف اور صرف Exclusive جمہوری نظام کے اندر ایک متفقہ آئین کی عملداری اور قانون کی منصفانہ عملداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بھارت قدیم قومی شناخت کا حامل ہونے کے باوجود ایک کثیر المذاہب ملک ہے جہاں ہم سے کئی گنا زیادہ تعداد میں قومیتیں پائی جاتی ہیں۔ سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بے شمار کلچرل گروہ بستے ہیں ۔تاہم ہم مانیں یانہ مانیں بھارتیوں نے آج اپنے لئے ایک جھوٹی سچی Nationhood پیداکر لی ہے۔اگرنیاز مرتضیٰ کے سیاسی فلسفے کو مدنظر رکھا جائے تواس کا بنیادی محرک بھارتیوں کی کسی نہ کسی درجے میںجمہوریت سے وابستگی ہی کو قرار دیاجا ئے گا۔ بھارت کی معاشی آسودگی،اس کے عالمی تشخص اور ہمارے ہاں کے حالات میںپائی جانے والی تفاوت پر پاکستانیوں کا دل شکستہ ہونا فطری عمل ہے۔تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے وقت لگ بھگ ہمارے جیسے اسباب کا حامل اور یکساں مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود بھارت ہم سے اس قدر آگے کیونکر نکل گیا ہے؟ظاہر ہے موضوع کا احاطہ ایک اخباری کالم میں ممکن نہیں۔ تاہم اگر اجمالی جائزہ لیا جائے توتین بڑے اسباب سامنے آتے ہیں۔ اولاً،جمہوریت سے وابستگی اورآئین کی عملداری۔بھارت نے فوری طور پرانڈیا ایکٹ1935 کو اپنی قومی ضروریات کے مطابق ڈھال کر نافذ العمل کر لیا۔ دنیا کی سب سے بڑی انتخابی مشق اسی آئین کے تحت اپنے معمول کے مطابق پچھتر برسوں سے جاری وساری ہے۔صر ف ایک بار آئین کی کچھ دفعات کو جزوی طور پر معطل کئے جانے پر بھارتیوں نے اندرا گاندھی کو آج تک معاف نہیں کیا۔ یہ نہیں کہ فوجی مداخلت کا امکان کبھی پیدا نہیں ہوا۔ عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہ آئی۔کانگرس کئی عشروں تک نہرو خاندان کے زیرِ اثر رہی، تاہم چند بہترین بھارتی وزراء اعظم کہ جن کا تعلق کانگرس سے تھا، کانگرس کے ’بڑوں‘ نے’ خاندان ‘کے باہر سے چنے ۔دوئم، عمدہ خارجہ پالیسی اورخود انحصاری۔ روزِ اول سے بھارت غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کے بانی ارکان میں شامل رہا ہے۔ غیر جانبداری کا ڈھونگ رچاتے ،سرد جنگ ہو یا امریکہ چین مخاصمت ہو یا کہ یوکرین جنگ ، بھارت کی خارجہ پالیسی سختی کے ساتھ اپنے قومی مفادات پر مرکوز رہی ہے۔بھارت کے اندر مالی بد عنوانی بے انتہا ہے۔ لیکن کسی بھارتی حکمران پر بیرونِ ملک اثاثے بنانے کا الزام آج تک عائد نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی امداد بند ہو سکتی ہے۔ملک پابندیوں کا شکار ہو سکتا ہے ۔ لیکن تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھارتی حکومت کو کوئی بیرونی طاقت مقامی مہروں کی مدد سے بنا ، یا پھرگرا سکے۔ سوئم، طویل المدت تعلیمی پالیسی۔ آزادی کے فوراََ بعداگلے پچاس برسوں پر محیط سیکولر تعلیمی پالیسی کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی علوم پڑھانے کے لئے امریکی تعاون سے ابتدائی برسوں میںہی 17ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کی بنیادیں رکھی گئیں۔آج بھارت ان اشجار کا پھل کھا رہا ہے۔ گوگل کے بھارتی نژاد ،اکاون سالہ سی ای او سال 1951 ء میں قائم کئے جانے والے انہی میں سے ایک’ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘کے فارغ التحصیل ہیں۔بھارت کا چندریان 3اس وقت خلا کے کس مدار میں گھوم رہا ہے، اس بار بھی چاند پر اُترتا ہے یا نہیں، ہم نہیں جانتے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے بھارتی مگر اس کا ذکر فخرو انبساط سے کرتے ہیں۔ بھارتیوں کی اس نسل کے لوگ اب خواب ہوئے جوکبھی کسی پاکستانی کو ملتے تو لاہور، پشاور یا ملتان کی یاد میں آبدیدہ ہو جاتے تھے۔بھارت میں سب اچھا نہیں ہے۔ معاشرہ انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے۔صدیوں کی غلامی اور مفلسی کے بعدحال ہی میں نئی نئی معاشی آسودگی دستیاب ہونے کے بعدمگر بھارتی نوجوان اپنی عظمت اب صدیوں پرانے اکھنڈ بھارت میں ڈھونڈتا ہے۔پاکستان کو حقیر جانتا ہے۔ہم مودی جی کو لاکھ برا جانیں، مگر کروڑوں بھارتی ان کی قیادت میں پُر جوش ہیں۔ ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا انہی انتہا پسندوں کی ترجمانی کرتا ہے۔جیسے تیسے بھی ہو ، جمہوریت کا سفر مگر جاری ہے۔جوں جوں مزید دولت ملک میں آتی جائے گی، تعلیم اور عام ہو گی۔ تعلیم عام ہوگی تو غربت کم ہوگی ۔ مڈل کلاس پھلے پھولے گی ۔ مودی جیسے عناصر چَھٹتے جائیں گے۔نتیجے میں جمہوری اقدار اور روایات مزیدمضبوط ہوتی چلی جائیں گی۔قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔دنیاکی معلوم تاریخ میں قوموں کے عروج وزوال کی یہی داستان ہے۔