1990میں مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اوراس کے جارحانہ تسلط کے خلاف میںحیران کن مسلح مزاحمت شروع ہوئی اوراس جدوجہد کے دو دھارے یادو کردار سامنے آئے جن میں سے ایک دھارا صاف طورپرالحاق پاکستان کاحامی ہے اور مسلح جدوجہد کاایک دھارا جہاد بالسیف کے ذریعے مقبوضہ جموںوکشمیرکوبھارتی جبری تسلط سے آزاد کروا کر ریاست جموں وکشمیرکاالحاق پاکستان کے ساتھ کرکے نصب العین کی طرف بڑھنا چاہتا تھا ۔ اس دھڑے کا نام ’’گرین بلٹ ‘‘تھااوراس میں حزب المجاہدین اورجمعیت المجاہدین کے علاوہ نصف درجن عسکری تنظیمیں شامل تھیں۔ان کی مسلح جدوجہد کوتین دہائیاں گذرگئیں۔ ا س کی صف اول کی قیادت بھارتی فوج کے خلاف معرکہ آرائیوں میں شہادت پاکرامر ہوئی،اس سفر کے دوران بعض وجوہات کی وجہ سے جہاد باسیف کی حامل عسکری تنظیموں میں ضعف بھی پید اہوا لیکن اس کے باوجودنہتے ہاتھوں وہ بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف برسر جدوجہدہیں اورمسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی کے حصول سے ہنوز دستبردار ہونے پر آمادہ نہیںکیونکہ’’ گرین بلٹ ‘‘سے وابستگان کا یہ ایمان ہے کہ بھارتی قبضے کوتوڑنے کے لئے اس کے علاوہ اورکوئی آپشن موجودہی نہیں ہے اوراس آپشن کوجاری رکھنے کے لئے پاکستان کی عملی مددناگزیرہے۔ اس جدوجہد کادوسرادھارایااس کادوسراکردار جموںوکشمیرلبریشن فرنٹ ہے جوبھارت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جموںوکشمیرکوایک ’’خودمختارملک ‘‘کے طور پردیکھنے کے لئے برسرجدوجہد ہے ۔وہ خودمختار کشمیر کے خواب کی تعبیر کے لئے ایسے حیل وحجت پیش کرتارہاجس کامطلب کشمیر کو ایک مذہبی ریاست نہیں بلکہ خالصتاََایک سیکولر ملک بناکردنیامیں اس کومنواناہے۔اس دھارے کے بانی مقبول بٹ شہید کے بعد امان اللہ خان مرحوم تھے جبکہ آج لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمدیاسین ملک ہیں جوفی الوقت دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید ہیں اوربھارت نے دہشت گردی کے کالے قانون (UAPA) کے تحت ان کے خلاف مقدمہ عائد کیاہے۔بھارت نے ان پرکشمیر میں قابض بھارتی فوج کے خلاف عسکری کاروائیوں،حملوں کی ساز کرنے اور بھارت دُشمنی پرمبنی خیالات کے اظہار کا مرتکب قرار دیا گیا۔11 مئی2022ہفتے کوبھارتی میڈیا یہ ڈھنڈوراپیٹتارہا کہ یاسین ملک نے اپنے خلاف الزامات پر اقبال جرم کیا ہے اور19 مئی2022 کونام نہاددہشت گردی کے خلاف قائم کردہ سپیشل کورٹ کے جج پروین سنگھ نے انہیں سزاسنائے جانے کی تاریخ مقررکررکھی ہے ۔ گزشتہ برس ویڈیو کانفرس کے ذریعے ہونے والی ایک سماعت کے دوران یاسین ملک نے کسی بھی وکیل کی مدد لینے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ گواہوں کے ساتھ خود ہی جرح کریں گے۔ان کاکہناہے کہ کشمیرمیں حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کرناعالمی قوانین کے مطابق ان کاحق ہے اس لئے ان کے خلاف عائد مقدمہ یہ من گھڑت اور جھوٹا ہے۔جن دیگر محبوسین کے خلاف فردجرم عائد کی گئی اُن میں شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، الطاف شاہ، آفتاب شاہ، نول کشور کپور اور فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے سمیت گیارہ افراد شامل ہیں۔یاسین ملک1980 کے دوران’’اسلامِک سٹوڈنٹس لیگ‘‘ کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔1987 میں انہوں نے’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کے جھنڈے کے سائے میں رہ کرکشمیر کی نام نہاد اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں متحدہ محاذ کے اُمیدوار،موجودہ سپریم کمانڈر حزب المجاہدین اورمتحدہ جہاد کونسل کے چیئرمیں محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین کے لیے انتخابی مہم بھی چلائی۔ان انتخابات میں بھارت نے دھاندلی کرکے ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کی جیت کوہارمیں بدل دیاجس کے بعد1988 میں یاسین ملک نے مسلح تربیت حاصل کی اور لبریشن فرنٹ کے بینرتلے عسکری جدوجہدمیں شمولیت اختیارکی کئی ماہ وسال گذرنے کے بعد لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان کی وصیت کے مطابق ان کی زندگی میں ہی محمدیاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین نامزدہوئے ۔ کئی برس تک مسلح سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف1994 میں یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کرکے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دیا اور عہد کیا کہ وہ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ بعد میں ملک نے دعویٰ کیا کہ قابض بھارتی فوج کی سفاک کارروائیوں کے دوران سیز فائر سے قبل لبریشن فرنٹ کے600 اراکین حیات جاوداں پاگئے۔درندہ صفت قابض بھارتی فوج کے خلاف عسکری جدوجہد ترک کرنے کے باوجود لبریشن فرنٹ مقبوضہ جموںوکشمیر پربھارتی جبری قبضے کو تسلیم کرنے سے صاف طورپرانکار کرتی رہی اوروہ حریت کانفرنس کی طرح کشمیر کو بھارت سے آزادی دلانے کے لئے سیاسی جدوجہدپریقین رکھتی ہے ۔تاہم یاسین ملک حریت کانفرنس کے دھڑوں سے یکسرالگ تھلگ ہوکر سیاسی جدوجہدچلارہے تھے ۔کئی برس قبل یاسین ملک نے مقبوضہ وادی کشمیراورجموںمیں مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں ’’سفرِ آزادی‘‘ کے نام پر ایک دستخطی مہم چلائی۔ اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر انھوں نے 2006 میں انڈیا کے اُس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملاقات کی۔کئی رپورٹس کے مطابق بھارت نے یاسین ملک پرجوکیس بنایا ہے اس میں بتایاگیا ہے کہ1989 میں یاسین ملک کی قیادت میں ہی لبریشن فرنٹ نے جیل سے اپنے ساتھیوں کو چُھڑوانے کے لئے اُس وقت کے بھارتی وزیرداخلہ مفتی سعیدکی بیٹی اورسابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعیدکومقید بنادیاتھااور کئی روز کے مذاکرات کے بعدلبریشن فرنٹ کے کئی لیڈروں کو رہا کیا گیا جس کے بعد روبیہ سعید کو بھی رہا کیا گیا۔1990میں لبریشن فرنٹ کے مسلح عسکریت پسندوں نے انڈین فضائیہ کے چار افسروں پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ بازار سے سبزی خریدنے میں مصروف تھے۔ حکومت نے اس حملے کے لیے یاسین ملک کو براہ راست ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔بھارتی عدلیہ اوربھارتی مقننہ کامودی حکومت کے ساتھ مکمل گٹھ جوڑ کودیکھ کراس امرکاشدیدخطرہ پایا رہا ہے کہ19مئی 2022جمعرات کودلی کاسپشل کورٹ یاسین ملک کے خلاف سخت ترین سزاکااعلان کرسکتی ہے اگرایساہواتوپھر کشمیر کے حالات نہایت کشیدہ ہوسکتے ہیں جس کی ساری ذمہ داری بھارتی عدلیہ ،مقننہ اورمودی انتظامیہ پر عائد ہو گی۔