انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی تو جمع کرا دیے گئے۔ اب ان کی جانچ پڑتال کے نام پر جو مشق شروع ہو گی، کیا اس کی غیر سنجیدگی کا کسی کو اندازہ ہے؟ الیکشن ایکٹ کے باب 15 میں، کسی امیدوار کی اہلیت اور نا اہلی کو جانچنے کے دو پیمانے مذکور ہیں۔ پہلے اور بنیادی پیمانے کا تعلق آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 سے ہے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 231 میں بھی قرار دیا گیا ہے کہ پارلیمان کا رکن بننے یا پارلیمان کا رکن رہنے کے لیے اہلیت کا معیار وہی ہو گا جو دستور پاکستان کے آرٹیکل 62 اور63 میں دیا گیا ہے۔ دوسرا پیمانہ الیکشن ایکٹ میں دیا گیا ہے۔ اس کا تعارف الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 میں ہے اور اس کی تفصیل اسی ایکٹ کے باب 10 میں بیان کی گئی ہے۔ ان دونوں کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل 62 بتاتا ہے کہ رکن پارلیمان بننے کا معیار کیا ہو گا اور آرٹیکل 63 یہ طے کرتا ہے کہ کن وجوہات کی بنیاد پر ایک رکن پارلیمان، رکنیت سے محروم کر دیا جائے گا۔ انتخابات میں امیدواروں کی اہلیت کا تعین چونکہ آرٹیکل 62 کی روشنی میں ہوتا ہے اس لیے اسی آرٹیکل سے ہم اپنے مطالعے کی ابتداء کرتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں امیدوار کی اہلیت کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: 1۔ امیدوار اچھے کردار(good character) کا مالک ہو۔ 2۔ اس کی عمومی شہرت ایک ایسے شخص کی نہ ہو جو احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہو۔ 3۔ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم (adequate knowledge) رکھتا ہو۔ 4۔ اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ہو۔ 5۔ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔ 6۔ سمجھ دار (sagacious) ہو۔ 7۔ پارسا (righteous) ہو۔ 8۔ فاسق نہ ہو، (non-profligate) ہو۔ 9۔ ایماندار (honest) ہو۔ 10۔ امین ہو۔ آئین میں امیدوار کی اہلیت کی جو شرائط دے دی گئی ہیں، ان کی شرح بیان نہیں کی گئی۔ اصطلاحات استعمال کر لی گئی ہیں لیکن کہیں وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا مطلب کیا ہو گا۔ یہ تو کہہ دیا گیا کہ امیدوار اچھے کردار(good character) کا مالک ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اچھے کردار سے کیا مراد ہے؟ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ امیدوار کا کردار اچھا ہے یا برا؟ کیا امیدوار کو پولیس اسٹیشن سے اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ لینا چاہیے یا کوئی اور ادارہ موجود ہے جہاں سے اچھے کردار کی سند جاری ہوتی ہے؟ انتخابات میں اگر کوئی شخص کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا یہ اس کے اچھے کردار پر عوامی شہادت سمجھی جا سکتی ہے یا خلق خدا کی اس گواہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس سے پہلے ہی امیدوار کو کہیں سے یہ ثبوت ڈھونڈ کر لانا ہو گا کہ وہ اچھے کردار کا حامل ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حصول اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں، کسی کے اچھے کردار پر حلقے میں عمومی اتفاق رائے پایا جا سکے؟ یہ تو طے پایا کہ امیدوار کی عمومی شہرت ایک ایسے شخص کی نہ ہو جو احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہو لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عمومی شہرت سے کیا مراد ہو گی؟ وہ کون سا پیمانہ ہو گا جس پر کسی کی عمومی شہرت کو جانچا جائے گا؟ کتنے افراد کی گواہی عمومی شہرت کا تعین کرے گی؟ فرض کریں کسی حلقے کے ایک دو ہزار ووٹرالیکشن کمیشن کو یا ریٹرننگ افسر کو تحریری طور پر اطلاع کر دیں کہ فلاں امیدوار احکام اسلامی سے انحراف کرتا ہے تو کیا یہ گواہی یا بیان اس شخص کی عمومی شہرت تصور کیا جائے گا اور اس امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا؟ نیز یہ کہ قانون کے اطلاق کا تعلق عمومی شہرت سے ہوتا ہے یا امر واقعہ سے؟ عمومی شہرت کی بنیاد پر ہی اگر فیصلہ کرنا ہے تو اہل سیاست ایک دوسرے کی بابت جو کچھ کہتے پھرتے ہیں، اس کے بعد کس کی عمومی شہرت ایسی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکے؟ یہ شرط تو رکھ دی گئی کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم (adequate knowledge) رکھتا ہو لیکن کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ خاطر خواہ علم کا مطلب کیا ہو گا؟اسلام کا کتنا علم،خاطر خواہ علم کہلائے گا؟ کہیں کوئی نصاب مقرر نہیں کیا گیا،کوئی اصول وضع نہیں کیا گیا، حتی کہ خاطر خواہ کے معنی بھی بیان نہیں کیے گئے۔ اب یہ تعین کون کرے گا، کیسے کرے گا اور کس بنیاد پر کرے گا کہ کسی امیدوار کا اسلامی تعلیمات کا علم خاطر خواہ ہے یا نہیں؟ اسی طرح یہ تو کہہ دیا گیا کہ سمجھ دار (sagacious) ہو، پارسا (righteous) ہو اور فاسق نہ ہو(non-profligate) ہو لیکن یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ ان اصطلاحات کے معنی کیا ہوں گے؟ انتخابی امیدوار کی اہلیت کے باب میں’’امین‘‘ہونے کی شرط رکھنا تو باقاعدہ ایک جسارت ہے۔ کہیں بھی مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ امین کا معنی کیا ہو گا؟ قانون کی دنیا کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں اگر کوئی لفظ یا کوئی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو لازم ہے کہ اس کے معانی وہیں وضاحت سے بیان کر دیے جائیں کہ اس باب میں کوئی ابہام باقی نہ رہے اور دو جمع دو چار کی طرح بات واضح ہو جائے کہ قانون کیا چاہتا ہے۔ جب قانون ہی واضح نہیں تو اس قانون کا اطلاق کیسے ہو گا؟ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد امیدواران کی سکروٹنی کا عمل شروع ہو گا تو کیسے معلوم ہو گا کہ کوئی امیدوار اچھے کردار کا مالک ہے یا نہیں،دین کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے کہ نہیں،فاسق تو نہیں اور سمجھ دار،پارسا اور امین ہے یا نہیں؟ آئین میں انتخابات میں امیدوار کے حوالے سے کچھ اصلاحات کا استعمال کیا گیا تو یہ ضروری تھا کہ آئین میں نہ سہی تو الیکشن ایکٹ میں ہی ان کی وضاحت کر دی جاتی، لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے۔ توکیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی طریق کار ہے جس کے مطابق ان شرائط پر عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے؟ نیز یہ کہ ان شرائط پر عمل درآمد مقصود بھی ہے یا یہ شرائط انتخابی عمل کو محض’’اسلامی ٹچ‘‘دینے کے لیے شامل کی گئی ہیں؟ تعلیمی اداروں کے باہر ایک زمانے میں لکھ کر لگایا گیا تھا:آئیے دیکھیے ہم فروغ تعلیم کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔الیکشن کمیشن بھی چاہے تو اپنے دفاتر کے باہر بورڈ نصب کرا سکتا ہے:آئیے دیکھیے،کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔