آج پاکستان معاشی‘ معاشرتی ‘ مذہبی اور ریاست کی سلامتی سے وابستہ شدید ترین خطرات میں گھرا ہوا ہے۔سرحدوں پر علاقائی اور عالمی دشمن مستعد اور متحرک ہے جبکہ اندرون ملک ریاستی ادارے‘ سیاسی و عسکری گروہ بن کر آپس میں شدید ترین عناد اور فساد میں مصروف ہیں۔عوام الناس کی اکثریت معاشی تنگی‘ مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں حواس باختہ ہے، شہروں اور سڑکوں پر لاقانونیت قانون شکنی بلکہ قتل و غارت کا راج ہے۔ریاست کی معاشی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ حکومت اور ریاست کرنسی سازی سے محروم کر دی گئی، یعنی آج پاکستان کے پاس روپیہ ہے نہ روپیہ سازی (روپیہ چھاپنے) کا اختیار ہے ۔ پاکستان کے تجارتی نظام کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ‘ پنشنر اور فلاحی عوامی ترقیاتی کاموں کی مالیاتی اجازت کا پروانہ بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان ایک عالمی مزاحمتی سیاست کی تحریک سے حاصل ہوا اس وقت کی عالمی استعماری ریاست برطانیہ نے مسلمانوں کی اسلامی جمہوری سیاسی اور عوامی تحریک کے سامنے مجبور اور بے بس ہونے کے بعد تقسیم ہند کو قبول کیا اور مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست پاکستان کی صورت میں خطہ زمین دے دیا۔ خطے کی اسلامی سیاست نے زمین حاصل کر لی عالمی اتحادی قوتوں اور اداروں کے نفاذ اسلام کے سیاسی نظام (Islamic Political Systim or will)کو سازشی تحریکوں کے ذریعے روکنے میں (فی الحال) اب تک کامیاب حاصل کر رکھی ہے مگر تابکے؟ پاکستان میں جدید عالمی نظام کو عملی فروغ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے جنیوا معاہدہ 1988ء سے ملا۔جنیوا معاہدہ کا مرکزی خطہ اور نقطہ کابل ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے عالمی تناظر میں کابل کو کلید ایشیا قرار دیا ہے یعنی جو کابل پر حکومت کرے گا وہ فی الحقیقت عالمی ایشیائی حکمران ہو گا۔قائد اعظم نے پاکستان کو عالمی سیاسی محاذ آرائی کا مرکز قرار دیا ہے۔آہنی اشتراکی روس نے کراچی تا گوادر ساحلی پٹی اور بندرگاہوں پر تسلط کے لئے 27دسمبر 1979ء کی شب کابل پر قبضہ کیا ناقابل شکست روسی سرخ افواج کابل اور افغانستان بشمول پاک افغان سرحد پر بیٹھ گئیں اور اس طرح پاکستان روس کا براہ راست سرحدی ہمسایہ بن گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی برادری ادارے اور طاقتیں روسی دہشت اور طاقت سے سہم کر رہ گئی تھیں پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔مگر یہ عالمی تنہائی کتاب الحماسہ کے شعر کی طرح تھی کہ میرے دوست احباب اور ساتھی سب چلے گئے مگر میں دو دھاری برہنہ تلوار کی طرح مزاحمتی جنگ لڑ رہا ہوں، اس وقت کی مزاحمتی ضیائی انتظامیہ نے تقریباً 3سال تن تنہا کبھی شکست نہ کھانے والی آہنی اشتراکی ریاست کے خلاف صف آرا رہی اور روسی فوجی یلغار افغان پہاڑوں میں بے بس گونج کی طرح ختم ہو کر رہ گئی کیونکہ اس وقت کے عظیم نیشنلسٹ صدر جنرل ضیاء الحق نے جان پر کھیل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کا دفاغ افغان پہاڑوں میں گوریلا جنگ سے کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکی امداد یا شمولیت(بشرط پاکستان) کے بارے میں نتیجہ خیز گفت و شنید کا آغاز بھی ڈھائی تین سال بعد ہوا تھا اس دوران پاکستان کی ضیائی انتظامیہ نے روسی یلغار کو افغانستان میں صرف روکے رکھا بلکہ گہرے فوجی زخم لگا کر ناکام واپسی کا عندیہ دے دیا کیونکہ روس کی معیشت اور عسکری ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔روسی صدر غالباً خروشیف برزنسکی نے افغان یلغار کو ’’رستا زخم‘‘ قرار دے دیا تھا وہ روسی جنگی جہاز جو پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے انہیں پاک فضائیہ بمباری کرنے سے قبل ہی گھیر گھار کر جہازوں کو قبضے میں لے لیتی اور روسی عملے کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیتی روس نے اپنے دفاعی حلیف بھارت سے پاکستان پر حملے کے لئے کہا مگر جنرل ضیاء الحق کی ’’سکھ پالیسی‘‘ نے بھارت کی دوران جنگ سپلائی لائن غیر محفوظ کر رکھی تھی جو بالآخر گولڈن ٹمپل‘ امرتسر میں جرنیل بھنڈرانوالہ کی مزاحمتی ہلاکت سے زور پکڑتی رہی اور بھارتی اندرا گاندھی روسی ایماء کے باوجود پاک بھارت جنگ کے ذریعے روس کو افغانستان میں بالواسطہ مدد نہ کر سکی بعدازاں بھارتی راجیو گاندھی نے سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لئے براس ٹیک جنگ کا حکم دے رکھا تھا مگر وہ صدر ضیاء الحق کی جرات مندانہ کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے ناکام بنا دی گی۔اس دوران پاکستان نے افغان مزاحتی مجاہدین کی فوج ظفر موج تیار کی،جو پاکستان کی ضیائی انتظامیہ کے ماتحت تھی۔اسی دوران پاکستان نے بہترین جوہری ہتھیار بنائے۔جب روسی دفاعی حلیف اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ فضائی حملہ کر کے پاکستان کے جوہری اور جہادی اثاثوں کو ختم کرنا چاہا تو صدر ضیاء الحق کے سادہ الفاظ نے کام کیا کہ پاکستان بھارت اور اسرائیل کے وجود کو ختم کر دے گا اور پاکستان کے پاس مذکورہ صلاحیت تھی اور آج بھی ہے مگر جراتمند نشنلسٹ قیادت کا فقدان ہے ۔قصہ مختصر کہ جب روس‘ بھارت اسرائیل کھلی جنگی کارروائی میں ناکام رہے تو روس امریکہ سرد جنگ ختم کی اور پاکستان کے خلاف مشترکہ اتحادی محاذ بنایا جس نے نام نہاد سول ملٹری جھگڑے اور کشمکش کے جال سے پاکستان کو زیر کر رکھا ہے،اب دشمن نے پاکستان کی ضیائی انتظامیہ کو زیر دام لانے کے لئے پاکستان کے اندر عالمی نیٹ ورک کو قائم کرنے کے لئے جنیوا معاہدے کو جواز بنایا اور اس وقت پاکستان کے اندر عالمی نیٹ ورک کی کامیابی کا یہ عالم ہے کہ امریکی انتظامیہ نے پرویز مشرف کی باعزت رخصتی کے وقت اعلان کیا تھا کہ اب پاکستان میں نظام اور پالیسی امریکی ایماء کے مطابق ہو گی کسی کو روگردانی کی اجازت نہ ہو ئی امریکی انتظامیہ نے ریمنڈ ڈیوس کی 46روزہ گرفتاری اور بلیک واٹر( کے بلا اندراج اور ویزہ پالیسی کے بعد) کی پاکستان میں آمد کے بعد کہا کہ پاکستان اندر امریکی اور اتحادی انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریشنل مکمل ہو چکا ہے اب امریکہ آئی ایس آئی‘ فوج یا کسی حکومتی تعاون اور اجازت کے بغیر بھی ازخود کارروائی مرضی کی کارروائی کر سکتا ہے۔