مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے چیئرمین سینیٹ بننے سے نہ صرف وسیب بلکہ پورے ملک میں خوشی کا اظہار کیا گیا ہے، مخدوم یوسف رضا گیلانی پاکستان کی سیاست کا خوبصورت چہرہ ہیں، سیاسی حوالے سے ان کا وسیع پس منظر ہے۔ وسیب کی خوشی اس بناء پر بھی ہے کہ سینیٹ میں وسیب کو نمائندگی حاصل ہوئی ہے جبکہ نگران دور میں وسیب کو نظر انداز کیا گیا ، مرکزی اور صوبائی کابینہ میں کوئی نمائندگی نہ دی گئی جس سے وسیب کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اس ادارے کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں جہاں سے انہوں نے الگ صوبے کا بل پاس کرایا تھا اور ان کی کوششوں سے صوبے کے قیام کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔ اب ان کے چیئرمین سینیٹ بننے سے وسیب کے عوام کو امید ہو چلی ہے کہ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی صوبے کے قیام کے آئینی عمل کو آگے بڑھائیں گے ۔ وسیب کے لوگوں کو ایک خوشی یہ بھی ہے کہ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے وسیب کے سپوت رانا محمود الحسن کو سینیٹر بنوایا ہے جس سے وسیب کے لوگوں کو امید بندھی ہے کہ صوبے کی آواز ایوانوں میں گونجتی رہے گی ۔ وسیب کے لوگوں کو یہ بھی اُمید ہے کہ بہت جلد صوبے بننے پر سینیٹ میں وسیب کو دیگر صوبوں کے برابر مساوی نمائندگی حاصل ہو جائے گی۔ صوبہ بننے کے بہت سے فوائد ہیں ، صوبہ صرف وسیب کے کروڑوں انسانوں نہیں بلکہ پاکستان کی بھی ضرورت ہے، صوبے کے نمایاں فوائد کیا ہیں؟ یہ بتانے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سید یوسف رضا گیلانی کا عوام کی خدمت کے حوالے سے ایک پس منظر ہے ۔ وہ 2001ء سے 2006ء تک جیل میں رہے ، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کوائف کے خلاف ملازمتیں دیں جس پر سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اگر یہ جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا ۔ سید یوسف رضا گیلانی 9جون 1952ء کو مخدوم علمدار بخاری کے ہاں پیدا ہوئے ، گورنمنٹ کالج لاہورسے گریجویشن اور 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی۔1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل ملتان ،1985ء میں ایم این اے ، 1986ء میں وفاقی وزیر ،1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے اور وزیر بنے، 1993ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا ، 1998ء میں پی پی کے وائس چیئرمین بنا دئیے گئے اور 25مارچ 2008ء کو پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم بنا دئیے گئے ۔سید یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم بننے کے بعد وسیب کو صوبہ بنانے کے علاوہ الگ بینک اور کیڈٹ کالج سمیت وسیب کے لئے بہت سے منصوبوں کا اعلان کیا چند ایک منصوبوں کی تکمیل ہوئی مگر اہم منصوبے تشنہ تکمیل رہے ۔ سید یوسف رضا گیلانی کی جو اچھائی ہے ، اسے ہر شخص تسلیم کرتا ہے ، سید یوسف رضا گیلانی 1983ء میں سب سے پہلے چیئر مین ضلع کونسل بنے تو انہوں نے غریبوں کو ملازمتیں دیں ، دوسرے مواقع پر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ 1993ء میں سپیکر قومی اسمبلی بنے تو انہوں نے تھوک کے حساب سے ملازمتیں دیں اور ان کے خلاف احتساب عدالت میں ملازمتیں دینے کا مقدمہ بنا تو انہوں نے کہا کہ ملازمتیں دینا جرم ہے تو میں اس جرم کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی جب مجھے موقع ملے گا ، میں یہ جرم کرتا رہوں گا ۔ وزیر اعظم بنے تو دوسرے جاگیرداروں کی نسبت اپنے وسیب میں بھرپور ترقیاتی کام کرائے، البتہ وسیب کی زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے انہوں نے کوئی ادارہ نہ بنایا اور نہ ہی قابل ذکر تعلیمی ادارے قائم کرا سکے اور تو اور اسلام آباد میں مختلف شاہرات کے نام مختلف زبانوں کے صوفی شعراء جیسا کہ رحمان بابا ، شاہ عبداللطیف بھٹائی ، مست توکلی ، خوشحال خٹک ، وارث شاہ ، شاہ حسین، میاں محمد بخش و دیگر کے نام پر موجود ہیں ، ہمارے مطالبات اور درخواستوں کے باوجود خواجہ فرید کے نام پر کسی روڈ کا نام نہ رکھا جا سکا، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح اسلام آباد میں بھٹائی آڈیٹوریم موجود ہے ، اسی طرح خواجہ فرید آڈیٹوریم بھی بنایاجائے مگر ہماری ان درخواستوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی اگریوسف رضا گیلانی یہ کام کرتے جاتے تو آج ہم شکوہ نہیں تعریف کر رہے ہوتے۔ کالم کی مناسبت سے میں مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو بتانا چاہتا ہوں کہ الگ صوبے کے ایک نہیں ہزار فائدے ہیں ، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ علیحدہ صوبہ ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا، الگ صوبہ بنے گا تو علاقے کی بولیوں کو بھی ان کا حق ملے گا اور اس کی ترتی اور بہتری کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا اور صوبہ بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر، وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہوں گے جو اپنے وسیب کی عوام کو جواب دہ ہونگے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ بننے کے ساتھ وسیب کے تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ بھی لاہور ، پشاور کی بجائے وسیب میں رہنا پسند کریں گے اور ہمارا اپنا صوبائی سیکرٹریٹ اور سول سروسز ہوگا، جو ہمارے وسیب کے ترقیاتی پروگرام ترتیب دے کر مکمل کرے گا اور اس طرح وسیب کے سارے مسئلے حل ہونگے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری اپنی ہائیکورٹ ہو گی اور سپریم کورٹ کا بنچ ہوگا ،سی ایس ایس میں ہمارا علیحدہ کوٹہ ہوگا اور ہمارا الگ پبلک سروس کمیشن ہوگا جو صرف وسیب کے نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا پابند ہوگا، ہماری اپنی پولیس ہو گی جس میں وسیب کے جوان ہی بھرتی ہوں گے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے نوجوانوں کو ملیں گی اور کسی دوسرے علاقے کے لوگ قبضہ نہ کر سکیں گے، ملازمتوں میں ہمارا بد ترین استحصال ہو رہا ہے ، صوبہ بنے گا تو ہمارے صوبائی محکمے ہمارے لوگوں کیلئے ہوں گے ، ہمارے لوگوں کے قریب ہوں گے ، فارن سروسز میں حصہ ملے گا اور ہمارا اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف وسیب پر خرچ ہوگا، پانی کے وسائل میں بھی برابر حصہ ملے گا ، صوبے کے ساتھ ہمارے وسیب میں زرعی آمدنی ، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہوں گے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو گی ، ہمارے صوبے کا علیحدہ تعلیمی بجٹ ہوگا جس کی وجہ سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہوں گے اور شرح تعلیم بڑھے گی اور زیادہ تعلیم زیادہ خوشحالی کی ضمانت ہو گی۔