پاکستان بھر میں عید الاضحی پورے مذہبی جوش و خروش سے منائی گئی ہے۔ اگرچہ اس بار بہت بڑی تعداد میں لوگ قربانی کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکے کہ مہنگائی کے منہ زور اور بے قابو بیل نے سبھی کے ارمانوں کو کچل کے رکھ دیا ہے۔ ہم بھی اپنے اہل و عیال کے ہمراہ عید منانے اپنے آبائی گاؤں چلے آئے کہ چند دن اپنوں میں گزارنے کے ساتھ گاؤں کے قدرتی ماحول سے لطف و اندوز ہو لیں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جہاں گاؤں شہروں میں بدل گئے ہیں وہیں ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے گاؤں اور شہر کے فرق کو اگر ختم نہیں کیا تو کافی حد تک کم ضرور کر دیا ہے۔ شہر سے گاؤں کا سفر کرتے ہوئے جو نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے ہریالی اور سبزے میں کمی۔ بچپن میں دیکھے گئے گاؤں اور کھیت کھلیانوں کی جگہ اب گھر اور دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں جسکا تصور لے کرہم گاؤں کا رخ کرتے ہیں وہ اب نایاب ہوتی جارہی ہے۔ درختوں کی کٹائی نے جہاں شہری زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں دیہاتی علاقوں پہ بھی اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے چکر میں درختوں اور پودوں کی کٹائی معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ درختوں کی لکڑی جہاں گھروں میں چولہا جلانے کے کام آتی ہے وہیں فرنیچر کے کاروبار میں بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ درختوں کو بے دھڑک کاٹتے چلے جاتے ہیں اور نئے درخت اور پودے لگانے سے گریزاں ہیں اور المیہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان میں باقی اداروں کی طرح باقاعدہ ایک اور ادارہ بھی ہے جسے محکمہ جنگلات کہا جاتا ہے۔ جسکی ذمہ داری وطن عزیز میں جنگلات اور درختوں کی حفاظت ہے لیکن یہ ادارہ بھی بلاشبہ اتنی ہی "محنت اور لگن" سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے جیسا کہ باقی سرکاری ادارے ! ایسا ادارہ جو ہزاروں ملازمین کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افسران کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ ہمارے ٹیکس سے چلنے والا ادارہ ہماری ٹھنڈی چھاؤں چھیننے کا مکمل ذمے دار ہے۔ ہزاروں ایکڑ پہ پھیلے جنگلات اور ٹنوں کے حساب سے قیمتی لکڑی کی خرد برد اور غیر قانونی کٹائی سے سبھی واقف ہیں۔ پہاڑی علاقے ہوں یا میدانی ، محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ہے کہ وہ درختوں کی چوری پر مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکشن لے۔ لوگوں کی اکثریت درخت کاٹتی ہے لیکن لگاتا کوئی نہیں۔ گھنی چھاؤں سبھی مانگتے ہیں لیکن اگاتا کوئی نہیں۔ موسم بہار کی آمد پر شجر کاری مہم زوروں پر چلتی ہے لیکن اسکے بعد کوئی خبر نہیں رکھتا کہ کتنے درخت پروان چڑھے اور کتنے نوعمری میں ہی کٹ گئے۔ پچھلے سال لگائے گئے سینکڑوں درختوں کی حفاظت و دیکھ بھال کا فریضہ کس کے ذمے ہے ؟؟ بدلتی حکومتوں کے ساتھ درختوں کی سرپرستی بھی بدل جاتی ہے اور پورے زور و شور اور نام و تختی کیساتھ لگائے گئے درخت پھر لا وارثوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ ملک میں جاری شدید گرمی کی لہر میں حالیہ بارشوں کے بعد اگرچہ کچھ کمی واقعی ہوئی ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں۔ ہماری قوم کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر امید اور آس حکومت سے لگاتے ہیں اور خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ قوم کی اکثریت اپنے وسائل اپنے ہاتھوں برباد کرتی ہے اور پھر رونا بھی روتی ہے۔ پاکستان میں زرعی زمین کی قلت کے ساتھ ساتھ درختوں اور جنگلات کی کمی نے ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ اس کا حل صرف درخت ، پودے ، جنگلات اور شجر کاری ہے۔ ہر جگہ گھروں میں، دفاتر میں، سڑکوں کے کنارے گرین بیلٹس کی صورت میں، علاقوں میں خالی پڑی زمین پر ، سرکاری و غیر سرکاری اراضی پر، ہر جگہ زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے۔ گھروں میں کچن گارڈننگ کو فروغ دے کر جہاں درجہ حرارت میں کمی کی جاسکتی ہے وہیں گھر میں اگی سبزیاں صحت کے لیے زیادہ مفید اور صحت بخش غذا فراہم کرسکتی ہیں۔ خصوصاً وہ علاقے جہاں کچی زمین میسر نا ہو وہاں گملوں میں پھل پھول اور پودے اگا کر ہریالی اور چھاؤں میں اضافہ کیاجا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے کہ گھروں میں ، دالانوں میں، راہداریوں میں، چھتوں پر باغبانی کر کے ماحول کی گرمی کو کم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی فارمولے کو اپنا کر شدید گرمی اور درجہ حرارت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ نیز اس سے ماحولیاتی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ محکمہ جنگلات کو گہری نیند سے جگانے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی جاگنا ہوگا۔ اگر ہمیں اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ہرا بھرا، سرسبز و شاداب پاکستان دینا ہے تو اسکے لیے محنت کرنی ہوگی اور یقین جانیں درخت لگانا اتنا بھی مشکل اور جان جوکھوں کا کام نہیں۔ موسم اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں نیز درخت لگاتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ درخت مقامی ماحول کے مطابق ہو اور اسے پھلنے پھولنے میں کوئی دقت نا ہو۔ نیز اسکی لکڑی قیمتی اور ماحول دوست ہو تاکہ مستقبل میں اس سے مکمل فائدہ اٹھایا جا سکے۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا حکم تو ہمارے دین اسلام نے بھی دیا ہے کہ یہ بہترین صدقہ جاریہ ہیں۔ انکی چھاؤں جہاں چرند پرند کو گھر فراہم کرتی ہے وہیں انسانوں کو بھی ٹھنڈی ہوا اور صحت مند فضا میسر ہوتی ہے۔ ایسے درخت جو پھل اور پھول فراہم کرتے ہیں انکو زیادہ اگایا جائے تاکہ پھلوں اور پھولوں کے کاروبار کو بھی فروغ ملے۔ نیز اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ جہاں درختوں کی کٹائی کی جائے وہاں فی الفور نئے درخت ضرور لگائے جائیں تاکہ اس کمی پر قابو پایا جا سکے۔ فضائی آلودگی میں کمی اور صاف ستھری ہوا ہمارا بنیادی حق ہے اور ہمیں بحیثیت قوم مل جل کر اس پر محنت کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی ٹھنڈی چھاؤں کی خود حفاظت کرنی ہوگی کیونکہ ایک درخت کئی انسانوں کی زندگی کا ضامن ہوتا ہے۔