چند روز قبل پاکستانی اشرافیہ ایک بار پھر 25کروڑ سے زائد عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے جمع ہوئی لیکن اس بار یہ بیٹھک برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں نہیں سجی بلکہ متحدہ عرب امارات کے معاشی دارالحکومت دبئی میں منعقد ہوئی، دیارغیر میں ہونے والے اس ملاپ میں غربت و افلاس کی ماری قوم کے’’حقیقی‘‘ نمائندوں کا شاہانہ انداز بڑے بڑے رئیس زادوں کا منہ چڑا رہا تھا، ملاقات کے متعدد دور ہوئے، نواز زرداری ملاقات کا ایجنڈا آئندہ عام انتخابات ، نگران سیٹ اپ کی تشکیل اور میثاق معیشت تھا سب سے اہم بات بھٹوزررداری اور شریف خاندان کے سوا کسی اور خاندان کے فرد کا اس ملاقات میں موجود نہ ہونا تھا تاہم علی ڈاربن اسحاق ڈار (دامادنواز شریف) کو ملاقات کی میزبانی کا شرف حاصل ضرور ہوا، معلوم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے بھی دونوں خاندانوں کو غیر معمولی شاہی پروٹوکول دیا گیا کیونکہ ان کے ٹھاٹھ باٹھ سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دو خاندان ہی آئندہ ملکی سیناریو کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کریں گے ۔عوام کی اکثریت بھی ان کی دلدادہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں پاپولر ووٹ بینک بھٹوزرداری اور شریف خاندان کا ہے اور اب اس دوڑ میں عمران خان بھی شامل ہو چکے ہیں اس کے معانی یہ نہیں کہ دیگر سیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتیں اپنا وجود نہیں رکھتیں ان کا وجود اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انہیں انتخابات میں ہمیشہ چند نشستیں ہی ملتی رہی ہیں اور ان کی کامیابی پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن یہ جماعتیں75 سال بعد بھی اس پوزیشن میں نہیں آسکیں کہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں یا کم از کم کوئی اچھی بارگیننگ کر سکیں۔ ان جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کو داد دینا ہوگی۔ انہوں نے ہمیشہ'' اچھی بارگیننگ'' کی وہ سیاسی دائو پیچ کھیلنے کے گر جانتیہیں اور انہیں اپنے ''سیاسی اہداف'' کے حصول کا فن آتا ہے۔ عمران خان ایسے ہی انہیں اپنے ہر جلسہ میں ہدف تنقید نہیں بناتے تھے انہیں مولانا کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ بھلا ہو جنرل باجوہ صاحب کا، انھوں نے عمران خان کو منع کیا کہ وہ مولانا کی تکریم کیا کریں ، زیادہ امکان یہ ہے کہ دبئی میں لگی بیٹھک کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو نگے۔ اس طرح پھر ایک تیسری سیاسی قوت کو پائوں جمانے کا موقع مل جائے گا ۔چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن اپنے ایک انٹرویو میں مسلم لیگ(ن) بارے بعض خدشات کا اظہار کرچکے ہیں اور اپنی قیادت کو درست سمت بڑھنے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔ ایک سیاسی گرو نے انکشاف کیا ہے کہ دراصل ندیم افضل چن کا انٹرویو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے دل کی آواز تھا اور یہ ایک پری پلان انٹرویو تھا۔ اس حقیقت بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین بڑی جماعتوں میں'' ویٹو پاور'' کس کے پاس ہوتی ہے؟ سنٹرل ایگزیکٹو کو نسل (سی ای سی) کا کردار ایک مشاورتی باڈی ہے ،سی ای سی کے ارکان اپنے سربراہان کی رائے سے کسی حد تک اختلاف کر سکتے ہیںلیکن فیصلے آصف زرداری، نواز شریف یا پھر عمران خان ہی کرتے ہیں ۔اکثریت کی رائے کو صرف سنا جاتا ہے ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا کیونکہ پاپولر ووٹ بینک ان کا نہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنمااسد عمر اپنے ایک ٹاک شو میں بڑی ہی اچھی بات بتا ئی کہ وہ عمران خان کی رائے سے اختلاف ضرور کرتے تھے بلکہ بعض اوقات عمران خان کی رائے سے اکثریت اختلاف کرتی تھی لیکن حتمی فیصلہ عمران خان کا ہی ہوتا تھا اور یہ فیصلہ اکثریت کی رائے کے خلاف ہوتا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف میں سارا ووٹ بینک ہی عمران خان کا ہے کوئی اپنی رائے پر بھلا کیوں اصرار کر ے گا؟ بات بڑی سیدھی ہے کہ اپنی رائے منوانے کیلئے ووٹ بینک کی ضرورت ہے اور پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کے سوا کسی کے پاس ووٹ بینک ہی نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کا عالم بھی اس طرح کا ہے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت پر انتہائی آزمائش کا دور تھا جس صورتحال سے 9 مئی2023ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف دو چارہے تقریبا ایسی ہی صورتحال کا سامنا 12 اکتوبر 1999ء کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کیا ۔پھر شریف خاندان نے جنرل مشرف سے ڈیل کی اور اس ڈیل بارے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا حتی کہ مسلم لیگ (ن) کے اہم قائدین کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ نواز شریف اپنے پورے خاندان کے ساتھ جدہ پہنچ چکے ہیں۔ جا وید ہاشمی کو قائم مقام صدر بنادیا گیا۔ انھوں نے مسلم لیگ (ن) کی ساکھ کو بچانے کیلئے ہر طرح کی قربانی دی لیکن شریف خاندان کی جدہ سے واپسی کے بعد ان کا پرسان حال نہتھا اور بالآخر انہوں نے اپنی قیادت کی بے اعتنائی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہی خیر باد کہہ دیا اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ بے نظیر بھٹو کی شھادت کے بعد انتہائی چابکدستی کے ساتھ آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر قبضہ کیا کہ بڑے بڑے برج الٹا دئیے کسی کو قیادت کے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری کا طوطی بولتا ہے وہ بھی سیاہ سفید کے مالک ہیں اور کسی سے مشاورت کے پابند نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑے بزرگ سیاستدان ان کا ہی دم بھرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے اگر کسی قسم کا اختلاف کیا پھر ان کا حشر بھی مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور صفدر عباسی جیسا ہوگا اور انہیں بھی راندہ درگاہ کردیا جائے گا۔ ہماری سیاسی قیادت کے اس رویہ نے ملک کو انتہائی مخدوش صورتحال سے دوچار کردیا جمہور اور جمہوری روایات صرف بات چیت تک محدود ہیں۔ لندن کے بعد دبئی پلان بھی تیار کر لیا جائے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک اس میں جمہور کی آواز کو شامل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ایسے پلان سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔