اک شکستہ سا ہے دل اور بھری دو آنکھیں میں تو اک حیرت خوش رنگ سے پتھرایا ہوں یعنی اس دہلیز پہ آیا ہوں مجھے حکمتوں کی تلاش تھی میں ترے دیار میں آ گیا تو ہے روشنی مری آنکھ کی ترا راستہ مرا راستہ اس در کے تقاضے بھی ہیں۔ ایک خاموشی کہ ٹوٹی نہیں اک لمحے کو اور میں اظہار پہ قابو نہیں رکھ پایا ہوں۔ دانہ چگتا چلا جاتا ہوں کبوتر کی طرح یہ مرا رزق ہے سو اڑتا چلا آتا ہوں۔اس خوش رنگ تمہید کا مقصد آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کے میلاد کی ایمان افروز تقریب سعید کا تذکرہ کرنا ہے جس میں ملک کے نامور محقق اور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر محمد امین مدعو تھے وہ عالم فاضل ہونے کے ساتھ دل میں دین کے درد رکھتے ہیں اور میں انہیں ایک شخص نہیں بلکہ ادارہ سمجھتا ہوں وہ البرہان کے مدیر بھی ہیں انہوں نے ایسی پتے کی اور بنیادی بات کی جو دین کی اساس ہے کہ حضورؐ پرنور نے افراد تیار کئے اور ایسے افراد جو چند تھے مگر انہوں نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کر کے دکھا دیا ظاہر ہے وہ طائفہ جو صحابہ پر مشتمل تھا ایک مثال ہی تھا۔خود ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی اس سنت پر عمل پیرا ہیں کہ ملت کے اچھے اچھے لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں اکٹھے بٹھایا جائے اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کریں اور یقیناً اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے ان کی تحریکی سوچ سے ایسے ہی شعر ذھن میں آ گیا: کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ یہ تقریب 12ربیع الاول کو مرغزار کالونی کے سبزہ زار میں تھی جسے خدیجتہ الکبریٰ پارک کہتے ہیں کمال کا اہتمام تھا لوگوں کی کافی تعداد بہت ذوق و شوق سے ڈاکٹر صاحب کو سننے آئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت خوبصورت انداز میں بات کا آغاز کیا کہ میلاد النبی کا جواز آپؐ کی سیرت پاک ہے کہ آپؐ کی تعلیمات کا تذکرہ کیا جائے اور اسی روشنی میں حالات کو سدھارنے کی بات کی جائے۔ظاہر اس کے لئے اولین حوالہ قراآن پاک جو اللہ نے اپنے محبوب ؐ پر اتارا اور آپؐ صاحب قرآن ہیں اے محمدؐ تو سب سے اعلیٰ ہے پورا قرآن تیرا حوالہ ہے جس کے دل میں تیری محبت ہے اس کے چاروں طرف اجالا ہے جب حضرت عائشہ ؓ سے کسی صحابی نے پوچھا تھا کہ نبی پاک ؐ کے بارے بتائیں حضرت عائشہؓ نے اس صحابی سے پوچھا کیا اس نے قرآن نہیں پڑھا ؟ سارا قرآن ہی آپؐ کا تعارف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امت مسلمہ کے سامنے اس وقت دو بڑے چیلنج ہیں 1۔ امت مسلمہ زوال سے کیسے نکلے اور امت مسلمہ مغرب کی الحادی فکر و تہذیب کے علمبردار ممالک کی اسلام اور مسلم دشمنی سے بچ کر دوبارہ غلبہ کیسے حاصل کرے؟ انہوں نے کہا کہ ان دو سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے جب ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں تو قرآن ہماری اس طرح رہنمائی فرماتا ہے کہ ان مسائل کا حل اتباع رسولؐ میں ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اے نبی فرما دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور بخشنے والا مہربان ہے۔(سور۔ العمران آیت 31) بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لئے پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے (سورۃ۔ احزاب آیت 21) تو اے نبیؐ تیرے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ آپ حکم فرما دیں تو وہ اپنے دلوں میں اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور اچھی طرح دل سے مان لیں۔ (سورۃ النسا آیت 65) ان تین آیات کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب اپنا بیان مزین کیا اور سیر حاصل بات کی دراصل یہی خود سپردگی اور سرنڈر ہے محبت اور عقیدت کے ساتھ مکمل اتباع کرنا ان کی بات کا لب لباب یہ تھا کہ حضورؐ نے ایک نظام دیا یعنی اسلام بطور نظام جس میں اللہ نے مختلف جگہوں پر تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ کا تذکرہ کیا۔ تعلیم میں دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں شامل ہیں آپؐ نے اپنے دور کے ذریعہ سے کام لے کر افراد کی تعمیر سیرت کی اور ایسے افراد تیار کئے جو قرآن کو مطلوب تھے۔انہیں افراد کو ساتھ ملا کر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کی اور ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو آخری نبی قرار دیا اور قیامت تک کے لئے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا دین کو قیامت تک کے لئے قابل عمل بنایا بین الاقوامی حیثیت عطا کی یہی وجہ ہے کہ موجودہ سو سال سے مسلمان بھی موجود ہیں مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک بھی۔ بارہ سو سال تک مسلمان عروج پر رہے اور پھر وہ اپنی غلطیوں اور بداعمالیوں کے باعث زوال پذیر ہوئے اب حل اس کا یہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو بدلیں۔ آپ تعلیم و تربیت کہہ لیں یعنی نظام کو اسلام کے مطابق بنائیں یعنی اسلامی تعلیم اور تزکیہ سے نظام قائم کر کے تربیت یافتہ افراد سے موجودہ نظام کو بدلیں یہ افسوسناک ہے کہ ہم تو تعلیم بھی اسی نظام باطلہ کو چلانے کے لئے دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مذہبی یعنی دینی طاقتوں کی بھی بات کی کہ وہ تو آپس میں ٹکرا کر اپنی قوت کھو رہی ہیں اپنے اپنے فروعی اختلافات ایک طرف رکھ کر بنیادی باتوں کو اکٹھا ہونا عین ممکن ہے۔ ڈاکٹر محمد امین بھی ایسی ہی تحریک کے متنمین ہیں جو دینی سرکردہ لوگوں کو مل بیٹھ کر خالصتاً دین کے لئے امت کو اکٹھا کریں ان پر بہت بڑی ذمہ داری اور خاص طور پر مدرسوں کی تعلیم جدید علوم سے آہنگ کریں۔ اس بار برکت تقریب کی نظامت جماعت اسلامی کے رہنما ملک محمد شفیق صاحب نے نہایت احسن طریقے سے کی۔ شرکت کرنے والوں میں کئی بڑے نام تھے اس تقریب پر آخری کلمات اور دعا جناب مولانا حمید حسین صاحب نے کروائی اہتمام کرنے والوں میں ڈاکٹر ناصر قریشی غلام عباس جلوی ندیم خاں عبدالغفور ایڈووکیٹ اور ملک سعید صاحب تھے اس تقریب میں نعت خوانی بھی تھی خصوصاً ارشد اور آصف صاحب نے لوگوں کے دلوں کو گرمایا۔ حمد کی سعادت میرے حصے میں آئی اقبال کے شعر کے ساتھ اجازت: لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب