اس میں کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں سے کتاب میری دوست، میری رشتے دار، میری محبوبہ، میری مرشد، میری تنہائیوں کی رفیق، مجھے لوریاں دے کے سلانے والی، میرا دکھ بانٹنے والی، مجھے سچی اور بے ریا خوشیاں عطا کرنے والی… غرض یہ کہ کتاب سے کس کس رشتے کا بیان کیا جائے؟ پھول اور کتاب کا یہی تو حسن ہے کہ مسلسل مسرتیں فراہم کرتے ہیں، ہمیشہ سکون بخش ہوتے ہیں، ان کا حصول،ان کی قربت ، ان کی دید، غیر محسوس انداز میں آپ کو روحانی طور پر مضبوط اور سرشار کرتے رہتے ہیں۔ کتاب ماضی میں بھی برکت کا سبب تھی، آج بھی مسرت کا باعث ہے اور آیندہ بھی فضیلت کا نشان رہے گی۔ ہم کسی کی پھیلائی ہوئی اس مایوسی کو نہیں مانتے کہ: یہ آخری صدی ہے کتابوں کے عشق کی یہ اپنے معاشرے میں پھیلتی جہالت کا اعتراف تو ہو سکتا ہے کہ ہم مسلمانوں کا مطالعے کا تناسب سال میں چھے منٹ ہے، پاکستانیوں کا جہالت کی لگاتار حکمرانی کی وجہ سے شاید اتنا بھی نہیں ہے۔ اس کو کتاب کا زوال قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آج بھی تمام تر ترقی یافتہ ممالک اس کے ساتھ سانس لیتے ہیں۔کتاب کی حمایت میں اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ خدا نے جب بھی انسان سے مخاطب ہونا چاہا، ہمیشہ کتاب کا سہارا لیا۔ ابنِ انشا نے اقبال کے ’کتابیں اپنے آبا کی‘ والے تأسف کے جواب میں سچ کہا تھا کہ اچھا ہوا، انھیں یورپ والے لے گئے اور خوبصورت کتب خانوں میں محفوظ کر لیا، ہمارے پاس رہتیں تو کب کی دیمک، جہالت اور بے توجہی کے سبب تلف ہو چکی ہوتیں۔ مَیں تو خود اپنے ذاتی کتب خانے کو اس نظر سے آنکتا رہتا ہوں کہ مستقبل میں اس سے کتنا عرصہ پیزے، شوارمے خریدے جا سکیں گے؟ خیر سنگین باتوں سے رنگین فضاؤں کا رُخ کرتے ہیںکہ آج بھی میرے سرہانے تازہ کتابوں کی قطار لگی ہے۔ جی چاہتا ہے سب کا تفصیلی حال لکھا جائے لیکن اخبار اور قارئین کے مزاج کے کچھ اور بھی تقاضے ہیں۔ میرے سامنے نیلم احمد بشیر کا نائن الیون کے تناظر میں تصنیف کردہ ناول ’طاؤس فقط رنگ‘ ہے۔ نیلم عصرِ حاضر میں فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ ان کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں ہوتا ہے جو پاکستانی اور امریکی معاشرے کے بیک وقت رکن ہیں اور جو ’نو گیارہ‘ کے عفریت کی نہ صرف چشم دید شاہد ہیں بلکہ فیملی کے وہاں آباد ہونے کے سبب متاثرین میں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مراد، شیری، ڈیلائلہ، کنول، سجیلہ اور عاقل بیگ جیسے کرداروں کی مدد سے امریکی رویوں اور نو گیارہ کے بعد مسلمانوں کی حالتِ زار کا پُر درد نقشہ کھینچا ہے اور صحیح تجزیہ کیا ہے کہ اوپر سے مور کی طرح رنگا رنگ نظر آنے والی امریکی معاشرت کے پنجے کتنے نوکیلے اور بھدے ہیں۔ مزید یہ کہ چند نام نہاد جہادیوں کی کوئی کاوش دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی کے لیے کس طرح عذاب کے رُوپ میں نازل ہوتی ہے۔’پیچ و تابِ زندگی‘ جناب صولت رضا کی ’کاکولیات‘ کے بعد میری نظر سے گزرنے والی دوسری کاوش ہے اور معقولیات کے درجے میں داخل ہے۔ پہلی کتاب میںجہاں ارد گرد کی اُلفتوں سے شریر انداز میں نمٹتا سیکنڈ لیفٹیننٹ دکھا ئی دیتا ہے، اس کتاب میں سیاسی، سماجی کلفتوں کا دانش مندانہ انداز میں تجزیہ کرتا ریٹائرڈ بریگیڈیئر نظر پڑتا ہے۔ اس میں پاکستانی سیاست دانوں اور جرنیلوں کی آمیزش، آویزش کی دلچسپ داستانیں بھی ہیں اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی دلدوز کہانی بھی۔ چند جملوں سے حقائق کی شدت کا اندازہ کیجیے: ’’وزیر اعظم بھٹو کو ایک اور ٹکا خان کی تلاش تھی… چہ میگوئیاں جاری تھیں… ایک دن کور کمانڈر نے پوچھا: کیا خبر ہے؟ مَیں نے بے ساختہ جواب دیا: سر دعا کریں نیا آرمی چیف فوج سے ہی ہو!‘‘/ ’’میاں نواز شریف نے جنرل ضیا کے سیاسی ورثے کو اپناتے ہوئے متعدد مرتبہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی، یہ اور بات کہ کچھ عرصے سے انھوں نے دیگر آرمی چیفس کے ساتھ اپنے مربی اور محسن کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے۔‘‘ سعدیہ قریشی پیشے کے اعتبار سے صحافی لیکن بنیادی طور پر صاحبِ دل قلم کار ہیں، لفظ کی توقیر کو سمجھتی ہیں۔ ان کی ’’کیا لوگ تھے!‘‘ ادب و صحافت و سیاست و ثقافت میں انفرادیت کے حامل اہلِ ہنر کا دلبرانہ تذکرہ ہے۔ سعدیہ نے اپنے عہد سے زیادہ دلوں میں بسے ہوئے منتخب کرداروں کے گرد عقیدت اور محبت کا خوشنما ہالہ ترتیب دیا ہے۔ دینا جناح، ایدھی، ڈاکٹر عبدالقدیر، منیر نیازی، قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، افضل توصیف، احمد فراز، مشتاق احمد یوسفی، طارق عزیز، بانو قدسیہ، منو بھائی،روحی بانو،نیرہ نور اور امجد اسلام امجد جیسی شخصیات پہ تأثرات اور تعلقات کی روشنی میں خوبصورت مونولاگ مرتب کیے ہیں۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں کتب قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نے شایع کی ہیں۔ گزشتہ سال جناب جسٹس ارشاد حسن خاں کی آپ بیتی ’ارشاد نامہ‘ نے ادبی، سیاسی، قانونی حلقوں کو چونکایا تھا۔ اس کتاب کے حوالے سے بے شمار اہلِ علم و دانش نے تحریری اظہارِ خیال کیا تھا۔ اب کے انھی وقیع تحریروں کو ’ارشاد نامہ: دانشوروں کی نظر میں‘ کے عنوان سے کتابی صورت دے دی گئی ہے۔شاہین عباس لمحۂ موجود کے ان قلم نواز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں، جن کا قلم ادبی گراؤنڈ کے چاروں جانب سٹروک کھیلتا ہے۔ غزل، نظم، ناول کے ساتھ اب ان کے دس منفرد موضوعات کے حامل دس افسانوں کا مجموعہ ’کہانی کافر‘ سامنے آیا ہے۔ شاہین عباس انفرادیت کے اس حد تک قائل اور چونکانے پہ اس قدر مائل ہیں کہ غالب کی طرح وبائے عام میں شاید مرنا بھی پسند نہ کریں۔ جناب توقیر شریفی، نظم اور غزل کے عمدہ شاعر ہیں۔ ’یکسوئی‘ ان کی نظموں کا مجوعہ ہے۔ ان کی نظم ’ہم اپنے اندر مر چکے ہیں‘ کے یہ مصرعے دیکھیے: نئے وطن سے ہے راہ ان کو/ اُسی کی بس ایک چاہ ان کو/وہ ننھے مُنے سے نونہالوں کو ساتھ لے کر/اسی گلی چلے تو آتے ہیں ہم سے ملنے/ پر ان کے تن پر وطن کے پھولوں کی/ کوئی خوشبو سجی نہیں ہے ’ممتاز سخنور‘ معروف شاعر ممتاز لاہوری کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے مقالے کی کتابی صورت ہے، جسے تمثیلہ لطیف نے نہایت محنت اور محبت سے تحریر کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عرفان پاشا کے پنجابی افسانوی مجموعے ’پرتن‘ نے بھی بہت مزہ دیا۔ موضوعات کا تنوع اور افسانے کی بُنت پاشا کی پختہ کاری پہ دال ہے۔ ایس ایم ظفر ہمارے ملک کے معروف قانون دان اور دانشور ہیں۔ ان کی تازہ ترین تصنیف ’پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ‘ معلوماتی ہونے کے ساتھ دلچسپی کا عنصر لیے ہوئے ہے۔ قومی اور بین الاقوامی تناظر میں قانون سازی اور قانون کے ساتھ دست درازی کے حوالے سے نہایت اہم اور پُرمغز دستاویز ہے۔ کتاب کے حوالے سے ہمیشہ کی طرح آج بھی میرا یہی مؤقف ہے کہ: زمانہ جب بھی کوئی چال چلنے والا ہو یہی کتاب مِرا آخری حوالہ ہو چلتے چلتے باقاعدگی سے موصول ہونے والے پرچوں کے حوالے سے مجھے مصطفیٰ کمال (شگوفہ، حیدرآباد دکن) شاہد علی خاں (الحمرا) مبین مرزا (مکالمہ) سلطان رشک (نیرنگِ خیال) حسین مجروح (سائبان) سلیم مجوکہ (ادبِ لطیف ) سونان اظہر (تخلیق) اور ’اخبارِ اُردو‘ والوں کا بھی ممنون ہونا ہے۔