مکرمی ! جھنگ یونیورسٹی میں 2019ء میں پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر کی سربراہی میں کلاسز کا آغاز کیا گیا۔وائس چانسلر کی دیانتداری اور انتھک محنتوں کے باعث ادارہ نے چند سالوںمیں ترقی کی۔انہوں نے محدود بلڈنگ کے ساتھ بہترین تعلیمی نظام متعارف کروایا،یہاں تک کہ اس نوزائیدہ یونیورسٹی میں ایم فل کے 10 پروگرامز کا بھی آغاز کردیا گیا۔،تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ سپورٹس گالہ اور کئی بڑے ایونٹس کو متعارف کروایا،جس سے طلباء کا رجحان بڑھا۔ڈاکٹر شاہد منیر کے چلے جانے کے بعد یونیورسٹی ایک یتیم بچے کی مانند ہوکر رہ گئی۔ڈاکٹر نبیلہ رحمان کو یونیورسٹی آف جھنگ کے وائس چانسلر کا اضافی چارج تو دیا گیا۔مگرڈھلتی شاموں کے ساتھ یونیورسٹی اپنے سربراہ سے کوسوں دور ہوتی گئی،آج ڈیڑھ سال کا عرصہ بیتنے کے بعد بھی وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہی ہے ،ساتھ ہی کئی اہم انتظامی عہدے تعیناتی کے منتظر ہیں۔جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے تعلیمی و انتظامی اموربھٹک کر رہ گئے۔چارہزارطلباء کیلئے 80 اساتذہ اور45 کلاس رومز ناکافی،پینے کے صاف پانی کی معطلی جیسے مسائل جنم لینے لگے۔نئی بلڈنگزکیلئے فندز تو درکنار،کمی کے باعث یوٹیلٹی بلز نہ ادا ہوسکے جس کے باعث واپڈا کی جانب بجلی کا کنکشن منقطع کر کے یونیورسٹی کو مزید اندھیرے کی طرف دھکیل دیا گیا۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث اساتذہ اور دیگر عملہ تین ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہے۔یوں اساتذہ نے احتجاجاً تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا،جاری پروگرامز کے امتحانات اورنئے تعلیمی سال کی کلاسز میں مزید تاخیر ہوگئی،جس سے طلباء بھی کئی مسائل کا شکار ہوگئے۔یونیورسٹی اساتذہ،طلباء اور سماجی حلقوں نے گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ سے یونیورسٹی آف جھنگ کے وائس چانسلر کی تعیناتی اورمسائل کو جلد از جلد نبٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔( حبیب الرحمن جھنگ)