نوبل انعام یافتہ ادیب ریگوبرٹا مینچو نے کہا تھا: مضبوط اداروں کے بغیر استثنیٰ وہ بنیاد بن جاتا ہے جس پر بدعنوانی کا نظام قائم ہوتا ہے۔ ورلڈ بنک نے گزشتہ روز پاکستان کے روشن مستقبل میں حائل چھ بڑے مسائل کی نشاندہی کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان چھ مسئلوں میں چھٹا مسئلہ ہی باقی پانچ مسئلوں کی وجہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا سرکاری شعبہ غیر موثر ہو چکا ہے اور اس کی وجہ پاکستان میں پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفاد ہونا ہے۔ پالیسی فیصلے سرکاری اداروں کو کس طرح تباہ کرتے ہیں اس کی ایک مثال گزشتہ روز قومی احتساب بیورو نیب کا ہائی کورٹ میں یوٹرن ہے۔ یوٹرن بھی ایسا کہ جس پر قانون اخلاق یہاں تک کہ خود یوٹرن لینے والے بھی حیران ہوں۔ یہی نیب تھا جو ہر ہفتے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی بدعنوانی نکالا کرتا تھا۔ نیب کی طاقت اور کرپشن پکڑنے کی صلاحیت کا یہ عالم تھا کہ میاں نواز شریف کے وزیر اعظم اور میاں شہباز شریف کے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کرپشن بے نقاب ہی نہیں کی بلکہ احتساب عدالت میں ایسے ایسے شواہد پیش کئے کہ بدعنوانی کے ان مقدمات کی سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی کے باوجود میاں نواز شریف کو سزا ہو گئی۔ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی نیب کو اپنے اور اپنے بیٹوں کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے اور مقدمات عدالتوں میں بھجوانے سے نہ روک سکے۔ سابق وزیر اعظم کو شدید بیماری میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور شہباز شریف شدید کمر درد کے باوجود مہینوں نیب کی حراست میں رہے۔ اس قدر طاقتور ادارے کا جب ارادہ بدلا تو یہ ادارہ جو میاں نواز شریف کو احتساب عدالت میں جس مقدمے کو سزا دلوا چکا تھا ۔ اس نے ہائی کورٹ میں دیدہ دلیر ی سے یہ کہہ دیا کہ اس مقدمے کے ثبوت ہی اس کے پاس نہیں۔ نیب کی اس کارکردگی کی وجہ سے صرف نیب پر ہی تنقید نہیں ہو رہی بلکہ پاکستان کے نظام عدل پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ نظام سے بے زار طبقہ اب یہ سوال کرے گا چلیں مان لیں کہ نیب نے میاں نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا مگر احتساب عدالت یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے نگران جج نیب کی بدنیتی کیوں نہ بھانپ سکے؟ نیب کے اس کارنامے کے بعد پاکستانیوں کا اپنے نظام عدل سے اعتماد ہی مجروح نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کے بدخواہوں کو بھی یہ موقع مل جائے گا کہ وہ یہ پراپیگنڈہ کریں کہ آج وہ کون سی طاقت ہے جو ایک وزیر اعظم کو عہدے پر ہوتے ہوئے بدعنوانی کے مقدمات میں الجھانے اور سزا تک پہنچانے کی قدرت رکھتی ہے۔ مجرم اور محرم کا نقطہ اٹھایا جائے گا! میاں نواز شریف کے وطن واپس آنے کے بعد افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طوفان پہلے ہی ساتھ امڈ آیا تھا۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہاں تک دعوے کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف نے ڈیل کی ویڈیو اپنے پاس محفوظ رکھ چھوڑی ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز نے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی تسلیم ہونے کے بعد کیا تھا۔ تحریک انصاف کی اول درجے کی قیادت برملا یہ کہہ رہی ہے کہ قیادت اور کارکنوں کے خلاف مقدمات اور سزائیں فیلڈ لیول کرنے کے لئے ہوں گی۔ افلاطون نے کہا تھا: ناانصافی کی بدترین شکل انصاف کا ڈھونگ ہے۔ نیب کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے نظام عدل پر انصاف کے ڈھونگ کا الزام دھرا جائے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نظام عدل قانون کے آئین و دائرے میں کام کرتا ہے۔ عدالت نے قانون کے مطابق شواہد اور مدعی کی استدعا کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے اگر مدعی ہی عدالت میں ملزم پر لگائے گئے الزام سے منحرف ہو جائے تو دنیا کی کون سی عدالت اور قانون ملزم کو سزا دے سکتا ہے یہاں پاکستان کے نظام عدل کے ساتھ یہ ظلم ضرور ہو رہا ہے کہ جب سزا دی گئی اس وقت ملزم نے اس ناانصافی کا الزام منصف پر لگایا تھا اور جب بریت کا فیصلہ ہوا تو نوافل کی ادائیگی اور اظہار تشکر کے بیانات آ رہے ہیں۔ ایلی ویزل نے کہا تھا:ایسا ممکن ہے کہ ہم ظلم و زیادتی کے سامنے بے بس ہوجائیں مگر ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے کہ ظلم و زیادتی کو حق تسلیم کر لیں۔یہی عالم آج پاکستانیوں کا ہے جو اس سارے کھیل کو دیکھ ہی نہیں رہے بلکہ سمجھ بھی رہے ہیں۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے کہا تھا:اگر ہاتھی کا پائوں چوہے کی دم پر ہو اور کوئی کہے کہ وہ غیر جانبدار ہے تو چوہا کم از کم اس کی تعریف تو نہیں کرے گا۔ ورلڈ بنک نے پاکستان کے روشن مستقبل میں حائل چھ بنیادی مسائل کی نشاندہی کرنا تھی کر دی یہ بتانا تھا کہ پاکستان کے سرکاری ادارے غیر موثر ہو چکے ہیں بتا دیا۔ ورلڈ بنک یہی بتا سکتا تھا کہ اداروں کے غیر موثر ہونے کی وجہ ذاتی یا پسند ناپسند اور ذاتی مفادات کے مطابق پالیسی سازی ہے۔ ورلڈ بنک پاکستان کے مسائل حل کرنے میں مدد توکر سکتا ہے مسائل پاکستان کو ہی حل کرناپڑیں گے۔ کوئی اداروں کو موثر اور مضبوط بنا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے پالیسی سازوں کو ذاتی مفادات کے مطابق پالیسی بنانے سے کوئی روک سکتا ہے۔ رہی عوام تو اس کا حال بھی کچھ ایسا ہے کہ جو کرنا ہے ’’شیر‘‘ نے ہی کرنا ہے ۔ مایوسی کے اندھیروں میں امید کی ایک کرن سابق صدرمشرف کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں کہ آئین توڑنے پر سزا نہ بھی ملے پھر بھی یہ تسلیم کریں کہ جو ہوا وہ غلط تھا۔ صرف چیف جسٹس ہی نہیں جسٹس اطہر من اللہ نے بھی سوال اٹھایا ہے ’’عدلیہ نے خود پر حملے کے بعد مشرف کے خلاف کارروائی کی۔ آئین توڑنے پر کیوں نہیں کی؟ آئین توڑنا ججوں پر حملے سے بڑا جرم ہے‘‘ امید کی اس لو سے سینکڑوں چراغ جل سکتے ہیں۔کاش نیب میں بھی اس طرح سوچنے والا کوئی موجود ہو اور دوسروں کا احتساب کرنے والا ادارہ خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔ اگر احتساب کرنے والے ادارے کو بغیر احتساب کے ہی چھوڑ دیا گیا تو نیب کا کیا یونہی عدلیہ بھرتی سے گی ،عوام یونہی تماشائی اور سیاستدان مرزا غالب کی طرح یہ دوہائی دیتے رہیں گے۔ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا