پیاس و افلاس کے صحرا چولستان کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، قدیم دریائے ہاکڑہ کے گم ہونے سے چولستان جسے سرائیکی زبان میں روہی کہتے ہیں وسیع صحرا کی شکل میں وجود میں آیا مگر اس صحرا کو بھی گمشدہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس پر یا اس کے جمادات و نباتات پر سرکاری سطح پر کوئی تحقیق نہیں ہو رہی اور نہ ہی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دی گئی۔ آج اس صحرا کا حوالہ صرف چولستان جیپ ریلی یا امراء کی شکار گاہ کے طور پر ہو رہا ہے۔ چولستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے آثار پر ریسرچ کے سلسلہ میں بندہ ناچیز نے چولستان سرائیکی کانفرنس کا انعقاد کیا، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب نے اپنے پیغام میں کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے چولستان میں مصنوعی بارشوں پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے ، مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی کے سائنسدان چولستان کو سرسبز و شاداب گلستان میں تبدیل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ، ان کا کہنا تھا کہ اسلامیہ یونیورسٹی ایک پل کیلئے بھی چولستان پر تحقیق اور ریسرچ سے غافل نہیں ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد خطے کی تہذیب و ثقافت ، زبان و ادب اور وہاں کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔ اپنے پیغام میں وائس چانسلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرائیکی زبان کی طرح وسیب کا خطہ چولستان بھی دل آویز ہے اور اس کے اندر کئی جہان آباد ہیں جسے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چولستان بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ، بر صغیر کی قدیم کتاب ’’ رگ وید ‘‘ میں بھی چولستان کے دریاؤں کا ذکر موجود ہے ، آج کا یہ صحرا پہلے دریا تھا اور موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے درمیان وادی ہاکڑہ کی شکل میں یہ خطہ ہنستے بستے شہروں اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا ۔ معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنی تحقیقات میں چولستان میں 13سو شہروں اور بستیوں کی نشاندہی کی مگر افسوس کہ چولستان پر کسی نے توجہ نہ دی ،آج چولستان مسائل میں گھر چکا ہے۔ چولستان کی تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ چولستان کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے ہی چولستان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، تقریب کی نظامت سرائیکی شاعر دیوانہ بلوچ ، انور مغل اور ریحانہ فلک نے سر انجام دی، کانفرنس سے اسلامیہ یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیو، پاکستان سرائیکی پارٹی کے صدر ملک اللہ نواز وینس، سابق وفاقی سیکرٹری حسین احمد مدنی ، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، معروف سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص ،ڈائریکٹر بہاولپور آرٹس کونسل سجاد حسین ، اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان بہاولپور سجاد بری، ڈائریکٹر میڈیا افیئر اسلامیہ یونیورسٹی شہزاد خالد، پروفیسر عصمت اللہ شاہ ، پروفیسر اطہر لاشاری ، صاحبزادہ میاں عبدالمجید عباسی ، پروگرام آفیسر بہاولپور آرٹس کونسل ملک ذکاء اللہ سمیت دیگر ریسرچ سکالروں نے خطاب کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیونے وائس چانسلر کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح چولستان کی تاریخی ثقافتی اور تہذیبی حیثیت ہے اسی طرح آج کی چولستان کانفرنس خطے کی نئی تاریخ رقم کرنے کا باعث بن رہی ہے،وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے شرکت کرنا تھی مگر ان کو لاہور جاناپڑا لہٰذا میں ان کی طرف سے خوشخبری دے رہا ہوں کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ نے چولستان سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے قیام کی منظوری دیدی ہے جس سے چولستان پر تحقیق اور ریسرچ کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں مبارکباد دیتا ہوں کہ دھریجہ صاحب نے اس خطے کیلئے پوری زندگی وقف کر دی ہے، بذات خود دھریجہ نگر ایک سرائیکی جہان کا نام ہے، چولستان کے حوالے سے اہم ترین کانفرنس کا انعقاد انہی کا کریڈٹ ہے، ڈاکٹر جاوید چانڈیو نے چولستان کی تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ چولستان ایک ایسے گمشدہ جہان کا نام ہے جسے ایک بار پھر سے دیکھنے اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے، آج یہ بھی انقلاب ہے کہ بہاولپور آرٹس کونسل میں چولستان اور سرائیکی وسیب کے مسائل پر کھل کر بات ہو رہی ہے، سرائیکی صوبے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے، ایک وقت یہ تھا کہ سرائیکی کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر جاوید چانڈیو نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے یاد ہے 1970ء کی دہائی میں کراچی میں سرائیکی کانفرنسیں ہوتی تھیں اور دھریجہ نگر کے معروف رائٹر غلام یٰسین فخری نے کراچی سے سرائیکی رسالہ ’’سچار ‘‘ شائع کیا تو ان کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، اس وقت ان کیخلاف طرح طرح کی باتیں ہوئیں ، اس قدر انتقامی کارروائیاں کی گئیں کہ انہیں کراچی ہی چھوڑنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی حوالے سے تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے، وادی ہاکڑہ قدیم اور عظیم تہذیب کا نام ہے، دریائے ہاکڑہ نے صدیوں پہلے اس خطے سے منہ موڑا مگر صدیاں گزرنے کے بعد چولستان میں رہنے والا ہر شخص نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہاہے کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ کانفرنس میں شرکاء کی طرف سے قراردادوں کی شکل میں مطالبات پیش پیش کئے گئے کہ نئے اضلاع قائم کر کے چولستان کو الگ ڈویژن کا درجہ دیا جائے، قومی و صوبائی اسمبلی کے نئے حلقے بنائے جائیں ، چولستان کے آثار اس کی قدامت کی گواہی ہیں انہیں محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں، چولستان کے قدیم باشندوں کو انسانی حقوق اور بنیادی سہولتیں میسر کرنے کے ساتھ چولستان کی تمام زمینیں مقامی باشندوں کو الاٹ کی جائیں ۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیئں چاہئے۔چولستان کی مردم شماری میں غلطیوں کو دور کیا جائے۔ چولستان کے آثار کو محفوظ بنا یا جائے ، چولستان میں رہنے والوں کو ان کے حقوق دئیے جائیں، چولستان میں تعلیم ، روزگار اور صحت کی سہولتیں،سب سے اہم اور بڑی ضرورت پانی کی فراہمی اور آبپاشی کے لئے نہری پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔