پاکستان میں ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار ہوتا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔کل رات سے پٹرول کی قیمت میں 14.85روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ابھی اور اضافے کی نوید بھی سننے میں آ رہی ہے۔عام آدمی کی قوت خرید جواب دے رہی ہے لیکن یہ بھی خبر ہے کہ پٹرول کی کھپت میں اسی ماہ 25فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔پہلے 15روز کے اضافہ کو بہت زیادہ سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اضافہ کے معیار کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ اب پندرہ روپے قابل قبول محسوس ہوتے ہیں جس طرح موت دکھائی دے تو بخار زیادہ تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان ابھی حکومت مخالف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے امریکہ مخالف بیانئے پر ڈٹے ہوئے ہیں اسلام آباد کی وکلا تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنا پرانا موقف ہی دہرایا ہے۔اس مجلس میں عمران خان کی تقریر میں تو پرانا مواد ہی تھا لیکن بعض دوسرے مقررین نے دلچسپ تقریریں کیں اور حاضرین کے لہو کو خوب گرمایا۔عام طور پر ایسی مجالس میں میرِ مجلس کے موقف کی تائید ہی نہیں تقریریں کی جاتی ہیں لیکن اس مجلس میں ایک معروف صحافی نے عمران خان کی کارکردگی پر ایک دلچسپ سوال اٹھایا جس کا جواب ایک قہقہے کی صورت ہی میں دیا گیا۔ ہمارے سیاستدان در حقیقت اپنی کارکردگی سے سکیھنا ہی نہیں چاہتے۔وہ صرف دوسروں کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں اور اپنی کارکردگی کے صرف مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ اپنی منفی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوں گے تو یہ بھی درست نہیں لگتا۔وہ اپنے ساتھیوں سے اپنی تعریف سننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر کوئی ان پر تنقید کرنے کی کوشش کرے تو وہ فوراً زیر عتاب آ جاتا ہے اور اسے قریبی ساتھیوں کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا ہے۔جو ساتھی جتنی تعریف کرتا ہے وہ اتنا ہی سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جو ساتھی حریف سیاستدانوں کے ساتھ جتنی بدتمیزی کرتا ہے وہ اتنی ہی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بڑے سیاستدانوں کے اردگرد بے علم‘ بدکردار‘ بدگفتار اور نالائق ساتھیوں کا ایک ہجوم موجود ہے۔بڑے سیاستدان بھی ان کی بدکرداری کو ذاتی فعل قرار دے کر اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور حریف سیاستدانوں کے خلاف ان کی بدگفتاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس کلچر نے پاکستان میں اچھے سیاستدان پیدا نہیں ہونے دیے۔پاکستان میں موروثی سیاستدان موجود ہیں اور ان کے خوشامدی دوسرے درجے کے سیاستدان کے طور پر موجود ہیں۔آج تک کسی بڑے سیاستدان کے کرپشن کے کیس بھی منطقی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔تیس سال کی موروثی حکومتوں کے بعد عمران خان کی صورت میں ایک غیر روایتی سیاستدان پاکستان میں برسر اقتدار آیا تھا لیکن وہ بھی اپنی نااہلی اور اپنی کمزور ٹیم کے باوصف کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لا سکا۔ عمران خان نے NROنہ دینے کا راگ الاپتے ہوئے ساڑھے تین سال گزار دیے۔عثمان بزدار جیسے لوگ ان کا حسن انتخاب تھے۔آج جب عمران خان اور ان کی جماعت عدالتوں میں جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں عثمان بزدار سابق وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی مراعات کے لئے فکرمند ہیں اور عدالتوں میں کیس لڑ رہے ہیں، بجائے اس کے کہ عمران خان کی حریف جماعتیں ان کے اقتدار کے دوران شکست و ریخت کا شکار ہوتیں‘ انہوں نے عمران خان کی جماعت کو ہی تقسیم در تقسیم کر دیا۔عمران خان نے اپنی مردم ناشناسی کی وجہ سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچایا بلکہ خود اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کیں۔عمران خان آج حزب اختلاف کی ایک جماعت کی حیثیت سے جس طرح اداروں میں اصلاحات کے بارے میں فکر مند ہیں‘ کاش انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران اس پر توجہ دی ہوتی،اب بھی عمران خان کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک فرد واحد یا ایک جماعت ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتی۔انہیں بے شمار ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ سٹریٹجی کا کوئی ماہر بھی انہیں یہ مشورہ نہیں دے گا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے خلاف کر لیں اور تن تنہا ان کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔ان کے جو ساتھی انہیں شب و روز قومی اداروں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں وہ یا تو ان کے ہمدرد نہیں ہیں اور یا اتنے سمجھدار نہیں ہیں کہ پارٹی کو مشکل وقت سے نکال سکیں۔انہیں اداروں کے خلاف بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے اور ایک حکمت عملی کے ساتھ ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے اسمبلی سے استعفیٰ دینے میں بھی جلد بازی سے کام لیا۔ آج اگر وہ اسمبلی میں موجود ہوتے تو حکومت اتنی آسانی سے قانونی ترامیم نہ کر سکتی اور اپنے لئے خود NROکا بندوبست نہ کر سکتی۔ یہ بات بھی شاید درست ہو کہ اگر وہ استعفیٰ نہ دیتے تو وہ شاید اس قدر مقبول لیڈر نہ ہوتے لیکن کیا ان کا حتمی ہدف ذاتی مقبولیت ہے یا پاکستان کے حالات کو بدلنا ہے۔میری ناقص رائے میں وہ اسمبلی میں رہ کر پاکستان کی بہتر خدمت کر سکتے تھے۔اگر وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچتے تو آج راجہ ریاض جیسے لوگ پاکستان میں حزب اختلاف کے لیڈر نہ بن پاتے۔اگر اب بھی موقع ملے تو تحریک انصاف کو اپنے استعفے واپس لے کر اسمبلی میں واپس آنا چاہیے اور ایک الگ طریقے سے قومی خدمت کرنی چاہیے۔آج اگر وہ لیڈر آف اپوزیشن ہوتے تو مریم نواز اور بلاول بھٹو جیسے لوگ انہیں برے القاب سے نہ پکار رہے ہوتے اور ان پر توشہ خانے کے تحفوں سے مال بنانے کے طعنے نہ دے رہے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو معجزانہ طور پر نئی سیاسی زندگی عطا کی ہے۔وہ اپنے عرصہ اقتدار میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ دوبارہ اپنی جماعت کو منظم کریں۔نسبتاً بہتر لوگوں کے ساتھ اتحاد کریں اور ہر بڑی طاقت کے ساتھ Confroatationکی پالیسی کو ترک کریں۔ادنیٰ لوگوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہ دیں کہ وہ انہیں ہر مقتدر ادارے کے خلاف برسر پیکار رکھیں اور اقتدار اور قومی خدمت سے دور کرتے جائیں۔ ملک میں انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا بیٹھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے ملک کو کس طرف لے جانا ہے۔انتشار کی اس حالت میں انتخابات بھی بے معنی ہو جائیں گے۔پنجاب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ملک کا سب سے بڑا صوبہ ن لیگ کی حکومت آنے کے باوجود ایسے چل رہا ہے جیسے صوبے میں کوئی حکومت ہی نہ ہو۔ہائی کورٹ کے فیصلے نے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ کر دیا۔پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رہی ہے، اور ن لیگ خوش ہے۔اعتزاز احسن جیسے بڑے قانون دان کا اس فیصلے کے بارے میں تبصرہ نہایت جامع اور مختصر ہے کہ فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت ختم کر دی جائے اور 24گھنٹے کے اندر اندر دوبارہ بحال کر دی جائے۔پاکستان کے تمام اداروں کو ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔سیاستدان بات کو اتنا طویل نہ دیں کہ معاملات ان کے ہاتھ سے ہی نکل جائیں۔