پچھلے پچھتر سالوں سے پاکستانی عوام نجانے کتنے بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ مہنگائی کا بوجھ، بیروزگاری کا بوجھ، غربت کا بوجھ، بیرونی قرضوں کا بوجھ، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا بوجھ، آتی جاتی حکومتوں کی بے حسی کا بوجھ، الیکشن سے قبل سیاسی رہنماؤں کے حسین وعدوں کا بوجھ ، اور پھر اسکے بعد تار تار ہوتے وعدوں اور خون ہوتی خواہشات کا بوجھ ، دو وقت کی روٹی پوری کرنے کا بوجھ، خاندان کی کفالت کا بوجھ ، حتی کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے نجانے کتنے عذابوں کا بوجھ اٹھائے رخصت ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو دیکھ کر بے ساختہ یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نا پایا تو کدھر جائیں گے ؟؟ بہرحال اصل مدعے پہ آتے ہیں کہ حکومت نے جاتے جاتے ایک بار پھر اپنے "سرکاری لاڈلوں " پہ مہربانی و عنایت کی ہے۔جس طرح ہر منتخب و غیر منتخب حکومت پاکستان کی تنزلی و بربادی میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے اسی طرح تمام سرکاری مشینری اسکا قدم بقدم ساتھ دیتی ہے۔ بے ایمانی، دھوکہ دہی، جھوٹ ، فراڈ، رشوت ، کرپشن وغیرہ وغیرہ جیسے فرائض کی ادائیگی میں کندھے سے کندھا ملا کر سرکار اور سرکاری مشینری ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے ہیں۔ ہو سکتا ہے قارئین کرام کو میری باتیں بہت کڑوی محسوس ہوں خصوصاً بیوروکریسی کو، لیکن اسوقت پاکستان کا جو حال ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بیوروکریسی نے اسکی تباہی و بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اگر ایسا نا ہوتا تو آج حالات بہت مختلف ہوتے اور پاکستان بلاشبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا محض ایک فیصد ہی اس عنایت سے کیوں مستفید ہو ؟؟ کیا مہنگائی صرف ان کی دہلیز سے لپٹی ہوئی ہے اور باقی عوام کے گھروں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ؟؟ کیا صرف انکے ناتواں کندھوں پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ہے ؟؟ کیا صرف یہ ہی غربت اور بیروزگاری کی جنگ لڑ رہے ہیں اور باقی عوام سکھ چین کی چادر تانے سو رہی ہے؟؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے تو پھر وہ لوگ جو اس ملک کا ہر بوجھ برابری سے اٹھا رہے ہیں چاہے وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہے یا کسی پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرنے والا پاکستانی ، وہ کوئی چھوٹا کاروبار کرنے والا تاجر ہے یا ریڑھی پہ پھل سبزی بیچنے والا بے حال پاکستانی ، کسی بڑی فیکٹری کا مالک ہے یا جنرل سٹور چلانے والا عام دکاندار ، گلی محلے کے سکول میں پڑھانے والا استاد ہو یا کسی سرکاری نیم سرکاری یونیورسٹی کا پروفیسر ، سبھی ایک سا بوجھ کندھوں پہ لادے سارا دن گدھوں کی طرح مشقت کرنے کے بعد اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی فراہم کر پاتے ہیں تو پھر ریلیف صرف ایک طبقے کو کیوں دیا جائے؟ کیا بیوی ، بچے، خواتین، بزرگ صرف انہی گھروں میں ہیں ؟؟ باقی کیانناوے فیصد عوام کہاں جائیں؟ کس سے ریلیف مانگیں؟ کس سے آمدن میں اضافے کی درخواست کریں؟ کس سے اپنی بے روزگاری اور غربت کا حساب مانگیں؟ وہ ملک جس کے ایک ایک فرد کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے ایسے ملک میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمام سرکاری اداروں کی افسر شاہی سے سرکاری مراعات واپس لے لی جاتیں۔ تمام سرکاری ششکے ختم کر کے قرضوں کی ادائیگی میں حصہ ڈالاجاتا۔ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج کو ایک ایک سائیکل تھما کر ان سے تمام سرکاری گاڑیاں بمعہ پیٹرول کے واپس لی جاتیں تاکہ سادگی کا درس دینے والے خود بھی سادگی کے "عذاب" کو جھیلنا سیکھیں۔ اس ملک میں "سادہ" زندگی گزارنا کتنا جان لیوا عمل ہے ذرا اس عمل سے افسر شاہی اور اسکے شاہی نوکر بھی استفادہ حاصل کر کے دیکھیں اور شاید انہیں اندازہ ہو کہ کتنے بھاؤ میں بکتی ہے۔ سادہ زندگی بسر کرنا اور اسکے درس دینا بہت آسان ہے لیکن اسکی جو قیمت چکانی پڑتی ہے وہ سادہ عوام ہی جانتی ہے۔ وزیر مشیر، وزراء اور سرکاری مشینری صرف سبز ہلالی پرچم اور سبز تختی کا ناجائز فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ الا ما شاء اللہ۔۔۔۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اور عوامی خدمت کا چوغا چڑھائے عوام کو لوٹنے اور ملک کو برباد کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس ضمن میں ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام سرکاری اداروں میں ترقی اور مراعات میں اضافہ کارکردگی کی بنیاد پر ہو۔ تنخواہوں اور پینشنز میں اضافہ صرف کام کی دیانت اور محنت سے مشروط ہوکہ جو جتنی محنت ، امانت داری اور میرٹ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کارکردگی دکھائے گا ، سہولیات و مراعات بھی صرف اسی کو ملیں گی ، ریلیف صرف انہی کو ملے گا۔ وطن عزیز کو گدھ کی مانند نوچنے والوں اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے نا کہ تمام سرکاری گدھوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ایک جیسی عنایات کی جائیں۔ دنیا بھر میں بیشمار ایسے ممالک ہیں جنکی ترقی میں انکی سرکار اور سرکاری مشینری کا بنیادی ہاتھ ہے۔ وہ ممالک جنکی حکومتیں اور سرکاری اہلکار و ملازمین دیانت، امانت اور صداقت کے اصولوں پر چلتے ہیں اور جن ممالک میں عدل و انصاف محض مخصوص طبقے کا حق نہیں ہوتا ، وہاں ترقی و خوشحالی ایسے آتی ہے جیسے بہار میں سبزہ خود بخود اگتا ہے۔ ملکی ترقی کے لیے لمبے چوڑے منصوبوں اور وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی صرف عقل و شعور کیساتھ خلوص اور دیانت ہو تو کم وسائل میں بھی کامیابی و ترقی ممکن ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا۔۔۔۔ اور جو نہیں ہونا چاہیے وہ مسلسل پچھتر سالوں سے ہو رہا ہے۔ جس ملک میں نا انصافی معمول بن جائے وہاں ترقی ، خوشحالی اور امن کبھی نہیں آتا اور زندگی محض بوجھ ہی رہتی ہے ، ایک نا ختم ہونے والا مسلسل بوجھ !!