صحافی اور ادیب دونوں ہی لفظوں کے دروبست سے کھیلتے ہیں۔ لیکن صحافت اور ادب میں طرز اظہار کا فرق ہے اور ان کے بیان کرنے کی ٹریٹمنٹ الگ ہے۔پاکستان میں بہت سے صحافی ایسے گزرے جو شعرو ادب میں بھی بڑے نام تھے۔ منو بھائی، ابراہیم جلیس ، ابن انشائ، تمام عمر ادب اور صحافت کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔ مشہور ناول نگار چارلز ڈکنز بھی ایک صحافی تھا۔ امریکی ناول نگار ،ارنسٹ ہیمنگوئے جنگی رپورٹر تھا ، اس نے بطور رپورٹر اپنے مشاہدات کو اپنے شاہکار ناولوں کا حصہ بنایا۔ اس کے مشہور ناول’ فئیر ویل ٹو آرمز ‘کا ہیرو بھی ایک جنگی رپورٹر تھا۔تنہائی کے سو سال جیسا لازوال ناول تخلیق کرنے والا گیبریل گارشیا مارکیز بھی صحافی تھا۔ایک انٹرویو میں اس نے ن کہا تھا کہ میری صحافت کو میری اس ادبی فطرتسے فائدہ پہنچا ہے اور میرے فکشن کے تخلیقی کام کو میری صحافت کے مشاہدات نے فائدہ پہنچایا ہے۔ دونوں شعبے، ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور صحافی آپ جس طرح سماج کے ہمہ جہت نظام اس کے طاقتور اسٹیک ہولڈرز اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے مسائل کا مشاہدہ کرتے ہیں کسی بھی اور شعبے میں آپ اتنا بھرپور، جامع اور گہرا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔کل پریس کلب میں اہل قلم صحافیوں کے اعزاز میں ایک تقریب پزیرائی تھی۔اہل قلم صحافی ی اصطلاح بھی ٹی وی چینلوں کے ہجوم اور اینکرز کے شور میں تیزی معدوم ہورہی ہے۔وقت تیزی سے بدل رہا ہے ہم جیسے لوگ بھی جو کبھی لک لکھنے کے لیے صرف قلم اور کاغذ کا استعمال کرتے تھے، اب پیڈ پر انگلیوں کی پوروں کو نچا نچا کر اپنے خیالات سکرین پر منتقل کرنے کے عادی ہورہے ہیں۔بدلتے ہوئے وقت سے آپ آنکھیں نہیں پھیر سکتے ۔اپنی اور دوسروں کی سہولت کے لیے کچھ چیزیں آپ کو اپنانا پڑتی ہے ۔قلم سے لکھنا مگر آج بھی مجھے عزیز ہے میں آج بھی نت نئی ڈائریاں اور خوبصورت قلم خرید نے کی شائق ہوں۔ جب میرا آفس پریس کلب سے ملحق سڑک ڈیوس روڈ پر تھا تو کبھی کبھار پریس کلب کا پھیرا لگ جاتا۔آپ برسوں سے پریس کلب نہیں گئی تھی۔اس بار منتظمین نے بلایا تو چاہا کے جایا جائے ،کچھ تحفظات کے باوجود پریس کلب کے جاکے صحافی کمیونٹی کے ساتھ جہاں sense of belongingکا احساس ہوتا ہے وہیں بعض حوالوں سے دل دکھتا بھی ہے۔کچھ ایسا کیا جائے کہ زوال پذیر پرنٹ جرنلزم سے وابستہ صحافیوں کے مالی حالات بہتر ہوں۔صحافت بھی ایک ایسا رومانس ہے جس کی گلیوں میں جانے والا پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا بھول جاتا ہے۔حرف و لفظ سے وابستگی کا رومانس اسے کہیں کا نہیں رہنے دیتا اور آخر میں حالت غلام محمد قاصر کے اس شعر سے ملتی جلتی ہے کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا صحافت کے پرانے اسکول آف تھاٹ کے صحافی اس پر پورے اترتے ہیں، اگر صحافت کی نوکری ان کے پاس ہے، پیسے مل رہے ہیں تو خوشی کی بات ہے اور اگر نوکری نہیں ہے تو بھی وہ صحافت ہی کی گلیوں میں رہنا پسند کرتے رہتے ہیں مگر اس میں وہ خود پر کوئی ملال طاری نہیں کرتے۔ان گلیوں سے نکل کر کسی اور بستی کارخ کرنا ان کے لیے عملاً ناممکن سا ہوجاتا ہے۔یعنی ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا والا حال ہے۔کبھی کبھی یہ مجھے صحافیوں کے لبادے میں درویش دکھائی دیتے ہیں۔ چائے کے کپ پر خوش رہنے والے۔صحافی ہونے کی حیثیت سے سے یہ سماج کے خوشحال اور اور دولت مند طبقے کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں مگر پھر بھی اپنی درویشی میں خوش رہتے ہیںلیکن زندگی کی حقیقتیں دوسری ہیں جو ہم سے زندہ رہنے کا پورا تاوان طلب کرتی ہیں۔ضروری ہے کہ صحافیوں کو ڈیجیٹل ہنر سکھائے جائیں۔اب جبکہ پریس کلب کے الیکشن اس مہینے متوقع ہیں، میں یہ تجویز دونگی کی پنجاب گورنمنٹ کے تعاون سے اچھے ٹرینر کو بلا کر صحافیوں کو ڈیجیٹل ہنر سکھائے جائی سہولت کے مطابق فزیکلی یا آن لائن سیشن ہونے چائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وقت تیزی سے بدل چکا ہے۔کچھ عرصہ ہوا قاسم فاؤنڈیشن گفتگو کی ایک نشست میں جانا ہوا جہاں ملین فالوورز والے یوٹیوبرز بھی موجود تھے اور ہمارے روایتی صحافی بھی۔ دونوں کسی الگ الگ منطقوں کے لوگ محسوس ہوتے تھے۔کہیں تو پڑھے لکھے گمنام روایتی صحافی کے مقابلے پر ملین فالورز والے یو ٹیوبرز زیادہ توجہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور انہیں زیادہ میڈیا پرسن مانا جاتا ہے۔نئے وقتوں کے نوجوان یوٹیوبر ملین فالوورز رکھتے ہیں سچ جھوٹ پیش کرکے اپنی ویڈیو وائرل کرنے کے ہنر جانتے ہیں اور پیسہ بھی بنا لیتے ہیں۔ان کے سوال کرنے میں نہ تہذیب ہے نہ شائستگی ہے۔ پڑھنے لکھنے سے دور ان کی ویڈیو پر جو لکھے ہوئے کیپشن چلتے ہیں وہ غلط اردو میں لکھے ہوتے ہیں۔یہ نئے دور کے میڈیا پرسن کبھی اپنی ویڈیو کو وائرل کرنے کے لئے اخلا قی گراوٹ کی تمام حدیں پار کر لیتے ہیں۔ ایسے وقت میں کتاب اور حرف و لفظ سے جڑے ہوئے صحافی غنیمت ہیں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی ادب اور صحافت کی آبیاری کرنے کو اپنے لئے ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔لاہور پریس کلب کی لٹریری سوسائٹی نے ایک خوبصورت تقریب میں شعر وادب سے وابستہ صحافیوں کے علمی و ادبی وجود کا اعتراف کیا اور انہیں توصیفی اسناد پیش کیں۔اس تقریب کا اہتمام پریس کلب کے لٹریری سوسائٹی نے کیا۔طارق کامران اور صبا ممتاز بانواور عبدالمجید ساجد منتظمین میں سے تھے ،سینئر صحافی سعید آسی صاحب ، عامر خاکوانی ،اختر عباس، اعجاز احمد بٹ اور سینئر صحافی تاثیر مصطفی بھی موجود تھے ۔ آخری بات بطور کالم نگار یہ کہوں گی کہ اب کالم نگاری بھی ادب کی ایک صنف مانی جارہی ہے۔جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جلدی میں تخلیق کیا گیا ادب ہے۔ کہیں پڑھی ہوئی ایک خوبصورت لائن یاد آگئی when journalism silenced literature must speak. بطور کالم نگار اس کا تجربہ کئی بار ہوا۔تب پروردگار کا شکر ادا کیا جس نے لفظوں کے باطن تک رسائی دی اور اظہار کو میرے لئے آسان کیا۔