اب سیاسی ترپ کا پتہ پی ڈی ایم کی جماعتوں اور حکومتی اتحاد کے ہاتھ میں نہیں ، اب یہ کارڈ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ الیکشن کب چاہییں، مارچ اور مئی میں سے انہیں کیا سوٹ کرتا ہے ، یہ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے حتمی اعلان کے منتظر ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا توامکان ہی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ رواں سیشن میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو سکتی ہے یا نہیں ،اہم یہ ہے کہ پیش ہو بھی گئی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہو گیا تو تحریک عدم اعتماد اس عمل کو زیادہ سے زیادہ سات دن تک تاخیر کا شکار کر سکتی ہے، روک نہیں سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو پنجاب کی اپوزیشن کے پاس نمبر ہی پورا نہیں۔ دوسرا یہ کہ ن لیگ کے اٹھارہ ممبران اسپیکر پنجاب اسمبلی نے معطل کر رکھے ہیں ۔یوں اپوزیشن کی جماعتوں کے پاس اٹھائیس ووٹ کم ہیں ۔ تحریک عدم اعتماد کی حجت تمام ہو بھی گئی تو اسمبلیاں ٹوٹنے کا عمل رک نہیں سکتا ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کچھ اور وجوہات کی بنا پر اس فیصلے کو موخر کرتے چلے جائیں۔ امکان یہ ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کے عمل کو کچھ نہ کچھ تاخیر کا شکار ضرور کریں گے اور چاہیں گے کہ اسمبلیاں اس طرح سے توڑی جائیں کہ مئی میں الیکشن ہو جائیں۔عمران خان دو مہینوں کے لیے مشاورت کر رہے ہیں ، مارچ اور مئی۔ فیصلہ انہیں اپنی جماعت اوراتحادیوں کے مشورے سے یہ کرنا ہے کہ کونسا مہینہ صحیح رہے گا۔ خبر یہ بھی ہے کہ مئی کے لیے تو ن لیگ بھی راضی ہوتی نظر آتی ہے۔ کئی لیگی رہنمائوں نے قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ مئی جون شروع ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بل عوام پر ستم ڈھانے لگیں گے اور یہ سلسلہ تین چار مہینے تک چلے گا۔لہذا ستمبر اکتوبر میں الیکشن لڑنا ہر گز دانشمندانہ فیصلہ نہ ہوگا۔ پچھلے سال جولائی اور اکتوبرکے ضمنی الیکشن کا نتیجہ حکومتی اتحاد بھگت چکا ہے۔ لہذا انتخابی سیاست میں حصہ لینے والی شخصیات کا خیال ہے کہ مئی نسبتا بہتر رہے گا۔ یوں اس بات کا امکان پیدا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف اور باقی جماعتوں میں انتخابات کے لیے مئی پر اتفاق ہو جائے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان دو اسمبلیاں توڑ دیتے ہیں تو کیا صرف دو صوبوں میں انتخابات ہوں گے یا پورے ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ میری رائے میں دو صوبوں میں الگ انتخابات اور باقی دو صوبوں میں قومی اسمبلی کے ساتھ انتخابات کی روایت ڈالنا بہت مشکل ہو گا۔ اس سے پورا شیڈول بھی خراب ہو جائے گا ۔ پانچ سال بعد بھی دو صوبوں کی مدت پانچ ماہ پہلے پوری ہو جائے گی تو کیا آئندہ بھی دو صوبوں کے انتخابات الگ وقت پر ہوتے رہیں گے۔ اس نکتے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کی معیشت دو بار انتخابات پر تقریبا ایک جتنے پیسے خرچ کرنے کی سکت رکھتی ہے۔اور تیسرا یہ کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری صورتحال میں بے یقینی کا پورا سال برقرار رکھنا ممکن ہے۔ لہذا قوی امکان یہی ہے کہ جیسے ہی دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑی جائیں گی باقی اسمبلیاں بھی گھر کی راہ لیں گی اور پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ عمران خان اس بات پر تو بہت پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ الیکشن جب بھی ہوں وہ دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے۔انہیں لگتا ہے کہ وہ ایسی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو دیر پا ہے ۔ مارچ ، مئی یا اکتوبر سے انہیں فرق نہیںپڑتا۔ عمران خان کے مقابل سیاسی قوتوں کی مقبولیت میں اضافہ ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ پرفارم کرنا شروع کر دیں ۔ روپیہ مستحکم ہو جائے، کاروبار چل نکلے، مہنگائی میں کمی دکھائی دینے لگے اور روزگار کاپہیہ چلنے لگے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں اس خوشخبری سناتی دکھائی نہیں دیتیں ۔ اسحاق ڈار کے پاس کچھ ایسانہیں کہ وہ کوئی جادو دکھا سکیں۔ لہذا یہی صورتحال رہی تو لوگ بدستور ناراض رہیں گے اور لوگ ناراض رہے تو انتخابی میدان میں بدترین شکست حکومتی اتحاد کا مقدر رہے گی۔ یہی وجہ ہے عمران خان کو لگتا ہے کہ مارچ یا مئی میں الیکشن ہوئے تو اچھا ہے اور اگر اکتوبر میں ہوئے تو اور بھی اچھاہے۔ یعنی موجودہ حکومت کی خراب معاشی کارکردگی جتنا عرصہ جاری رہے گی لوگوں کا غم و غصہ اتنا ہی بڑھتارہے گا اور لوگوں کے پاس اپنے غصے کا اظہار کرنے کا اور کوئی راستہ تو ہے نہیں وہ سارا غصہ بیلیٹ باکس پہ نکال دیتے ہیں ۔ پرویز الٰہی اگرچہ چاہتے ہیں کہ ان کی وزارت اعلی زیادہ دیر تک برقرار رہے ۔ مونس الٰہی کو مگر لگتا ہے جتنا جلد انتخابات میں جائیں گے،کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ رہیں گے۔ایک ملاقات کے دوران میں نے مونس الٰہی سے سوال کیا تھا کہ کیا ق لیگ اگلا الیکشن بلے کے نشان سے لڑ سکتی ہے، بلاجھجک انہوں نے بہت سادہ جواب دیا تھا کہ کچھ بھی خارج از امکان نہیں ۔ گویا مونس الٰہی اس آپشن پہ بھی غور کر رہے ہوں گے کہ اگر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا جائے تو دوبارہ بھی وزارت اعلی کا امیدوار بنا جا سکتا ہے۔ مگر عمران خان کو اس میں تامل ہو گا یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے۔ فی الحال توعمران خان کے سارے رستے اقتدار کی طرف جا رہے ہیں کوئی فاش غلطی انہوں نے نہ کی تو مارچ ہو یا مئی ،حکومت انہیں ہی ملے گی۔اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی عمران خان نے کیا حکمت عملی تیار کی ہے۔