ترجمان دفتر خارجہ نے ان دہشت گرد عناصر کی افغانستان میں موجودگی بتائی ہے جو پاکستان کے لئے خطرناک ہیں۔دفتر خارجہ میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان ممتاز زہرا نے کہا کہ بھارت کو بین الاقوامی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، انہوں نے پاک ایران امور سے متعلق واضح کیا کہ ایران نے پاکستانی شہریوں کے قتل کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔افگانستان میں دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں اور افغان طالبان کی پالیسی کے بارے میں اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔داعش اور طالبان کی نگرانی سے متعلق اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے جو گروپ کارروائیاں کر رہے ہیں انہیں القاعدہ نے تربیت دی ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان کی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی میں ہچکچاہٹ کو پاکستان اپنی قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ القاعدہ/طالبان مانیٹرنگ ٹیم کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کو پیش کی گئی 33 ویں رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو حاصل تعاون کی بابت بتایا گیا ہے کہ اس میں نہ صرف اسلحہ اور سازوسامان کی فراہمی شامل ہے بلکہ پاکستان کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے لیے زمینی فعال مدد بھی شامل ہے۔پاکستان نے متعدد بار کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان کی عدم فعالیت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کا باعث بنی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کے سرکاری موقف کے باوجود ٹی ٹی پی کی افغانستان سے باہر سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی ۔ ٹی ٹی پی کے بہت سے جنگجو پاکستان میں سرحد پار سے حملوں میں مصروف ہیں ۔ یہ امر کسی طور دونوں ممالک کے تعلقات کے لئے باعث اطمینان نہیں کہ طالبان کے کچھ ارکان اپنی کارروائیوں کو تقویت دیتے ہوئے ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں۔مزید یہ کہ ٹی ٹی پی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو افغان طالبان کی جانب سے باقاعدہ امدادی پیکجز ملنے کی اطلاعات ہیں۔افغان طالبان کی جانب سے 70 سے 200 کے درمیان ٹی ٹی پی کے ارکان کو عارضی قید اور پاک افغان سرحدی علاقوں سے دور کر کے شمال کی طرف منتقل کرنے کی حکمت عملی کو کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستانی دباؤ کا نتیجہسمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے بم دھماکے ایک پریشان کن رجحان کی علامت کے طور پر سامنے آئے۔ پڑوسی ملک افغانستان میں 20 سالہ خانہ جنگی کے دوران دہشت گردی تقریباً روزانہ کا واقعہ بن گئی تھی، یہ سمجھا جا رہا تھا کہ 2021 میں لڑائی کے خاتمے اور طالبان کی فتح کے ساتھ ہی یہ حملے ختم ہو جائیں گے۔ طالبان برسوں تک نرم گوشہ رکھنے پر پاکستان کے شکر گزار تھے۔لیکن امریکی انخلا کے بعد دہشت گردی اصل میں بڑھی ہے۔ افغانستان سے کام کرنے والے عسکریت پسند گروپوں کی تعداد میں اچانک اضافے سے پاکستان کی فکرمندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابقگزشتہ سال پاکستان میں 262 دہشت گرد حملے ہوئے، جو چار برسوں میں سب سے زیادہ تھے۔ افغان اور پاکستانی سرحدی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے، اگست 2021 سے پاکستان اور افغان طالبان کے سرحدی محافظوں کے درمیان کم از کم 14 بارفائرنگ کے تبادلے ہو چکے ہیں۔پاکستان کی قیادت واقعات کا رخ دیکھ کر حیران نظر آتی ہے۔بلاشبہپاکستانی عوام کو افغان طالبان کی حکومت سے بہت زیادہ توقعات تھیں جو پورا نہیں ہو سکیں۔امریکہ کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے مطابق افغانستان میں طالبان کے قبضے نے ٹی ٹی پی کو حوصلہ دیا، جس سے وہ پاکستان میں وہی کچھ دہرانا چاہتی ہے جو طالبان نے افغانستان میں حاصل کیا۔ کوگل مین کا کہنا ہیکہ طالبان نے اپنی مہم کی منصوبہ بندی کے لیے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں پناہ دی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک تجزیے کے مطابق ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستان کی حکومت کو صوبہ خیبر پختونخوا سے باہر دھکیلنا اور ریاست کے خلاف دہشت گردی کی مہم چلا کر اپنا نظام قائم کرنا ہے۔ماہرین کے مطابقطالبان اور پاکستان کا رشتہ کبھی بھی اتنا کمزور نہیں تھا جتنا کہ اب ہو چکا ہے۔ خطے کے مخصوص حالات کی وجہ سے پاکستان اپنی سلامتی سے متعلق بجا طور پر فکر مند ہے۔ایران کی سرحد پر حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر کسی تیسرے فریق کی کارستانی سمجھتے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں غزہ کی شکل میں ایک تنازع ہے جس میں پاکستان کو دباو میں رکھ کر کسی اہم کردار کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش سبھی حکومتوں نے کی۔طالبان سے قبل اشرف غنی اور حامد کرزئی پاکستان کے لئے ایسی پالیسی پر عمل پیرا تھے جسے بھارت کی خواہش پر ترتیب دیا گیا تھا۔ بھارت کے متعلق افغان طالبان اگرچہ بہت زیادہ پرجوش نہیں لیکن بھارت افغان سرزمین پر طالبان کے مقابل گروپوں کو مضبوط کر کے اپنے لئے گنجائش بنا رہا ہے۔پاکستان افغانستان کی طالبان حکومت کو اپنی استعداد بڑھانے کا کہہ چکا ہے دوسری صورت میں افغان سرزمین پر پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کا حق استعمال کیا جا سکتا ہے۔